جناب والا : کچھ کرو گے تو ووٹ ملیں گے ، عوام بیوقوف تھوڑی ہیں ۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) ایک دوست نے گذشتہ شب ہی اپنے پیغام میں کہا کہ خانیوال کا ضمنی الیکشن آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے۔ان کی مراد یہ ہے کہ لاہور کے حلقہ این اے133 کے ضمنی انتخاب میں پانچ ہزار سے 32ہزار تک چھلانگ کے بعد محترم آصف علی زرداری نے جو جشن منایا تھا
اس کی اصلیت خانیوال کا نتیجہ بھی ہے کہ یہاں پیپلزپارٹی کی طرف سے ایک مضبوط امیدوار(بمعنی زمانہ حال) اتارا،نامور کالم نگار چوہدری خادم حسین اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ صرف 15 ہزار ووٹوں تک محدود رہا۔اول مسلم لیگ(ن) اور دوم تحریک انصاف آئی۔یہ اس کے باوجود کہ اس حلقے میں سابق وزیراعظم اور پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین یوسف رضا گیلانی اور جنوبی پنجاب کے صدر، سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد مخدوم بھی موجود ہیں،اور پنجاب اسمبلی میں جو چھ نشستیں ہیں وہ بھی جنوبی پنجاب ہی کی مرہون منت ہیں۔میرے خیال میں تو یہ صرف پیپلزپارٹی کی قیات کے لئے ہی نہیں، خود برسر اقتدار تحریک انصاف کے لئے بھی سبق ہے۔یہ نشست مسلم لیگ(ن) ہی کی تھی،مرحوم ڈاہا اسی کے ٹکٹ پر کامیاب ہو گئے، لیکن منحرف ہو گئے تھے۔ان کی وفات کے بعد تحریک انصاف نے انہی کی اہلیہ کو ٹکٹ دے کر میدان میں اتارا تھا۔اب غیر سرکاری نتیجے کے مطابق کامیاب امیدوار رانا سلیم کے 47649 ووٹ، تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مرحوم کی بیوہ نشاط ڈاہا کو 34030 ووٹ، پیپلزپارٹی نے 15059،اور تحریک لبیک والے امیدوار شیخ اکمل نے 9619 ووٹ حاصل کئے ہیں۔یوں اس ضمنی انتخاب سے کئی مفروضے زمین بوس ہو گئے اور سب سے اہم جو نظریہ میرے نزدیک باعمل ہوا یا ہونے جا رہا ہے، وہ الیکٹ ایبلز اور معترضین کا ہے۔سیاسی پنڈت یہ کہہ رہے ہیں کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی گذر گیا، ابھی تک مسلم لیگ(ن) کے ووٹ بنک کو نقصان نہیں ہوا۔
اگر یہی دیکھا جائے کہ ترقیاتی کاموں اور وفاقی اور صوبائی حکومت کی حمایت کے باوجود خود برسر اقتدار جماعت اپنا امیدوار جتوا نہیں سکی، حالانکہ ہمدردی کے ووٹ بھی ملنا چاہئیں تھے کہ نشاط ڈاہا مرحوم ڈاہا کی بیوہ ہیں،جو یہ نشست جیتے ہوئے تھے اور چھ اراکین اسمبلی کے گروپ میں سے تھے، جو محاذ آرائی کو برا کہہ کر علاقے کی ترقی کے لئے وزیراعلیٰ سے ملتے رہے تھے۔جس دوست نے پیپلزپارٹی کی قیادت کو آنکھیں کھولنے کا مشورہ دیا وہ سینئر جیالے ہیں،جیت کر نہ صرف وزیر رہے،بلکہ حزبِ اختلاف میں بھی نمایاں کارکردگی کے حامل تھے اور ایک اچھے مقبول اور بے داغ رہنما ہیں،ایسی شخصیت ہیں جو ملکی حالات پر گہری نظر رکھتے اور ان حالات سے دُکھی ہیں،ان کی خود خواہش ہے کہ ان کی جماعت پھر سے مقبول ہو، اور پارٹی اصولوں کے مطابق عوامی خدمت کر سکے۔ان کو بلاول سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔ان سے میری تفصیلی بات تو نہیں ہوئی،لیکن مجھے اندازہ ہے کہ وہ بھی تنظیمی حالات سے مطمئن نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پیپلزپارٹی کو یونین کونسل کی سطح سے دوبارہ منظم کیا جائے،اور پرانے کارکنوں کی رائے کو اہمیت دی جائے۔اس سے پہلے کہ میں مزید کوئی بات کروں،خانیوال اور لاہور کے نتیجے کے حوالے سے کچھ عرض کر دوں، کہ لاہور میں جو انتخاب ہوا اس میں تحریک انصاف کا امیدوار نہیں تھا،وہ کاغذات مسترد ہونے کے باعث حصہ نہ لے سکا،نہ ہی تحریک لبیک کا کوئی امیدوار تھا اور اس کی طرف سے کسی کی حمایت بھی
نہیں کی گئی تھی۔ تحریک انصاف نے تو ایسی لاتعلقی اختیار کی، اس کی صوبائی قیادت نے اپنے ووٹروں کو الگ رہنے کی ہدایت کر دی تھی۔یوں یہ مقابلہ براہِ راست ہو گیا،اس کے بعد خود آصف علی زرداری لاہور آ کر بیٹھے اور نگرانی کی،کراچی سے پشاور تک کی قیادت نے انتخابی مہم میں حصہ لیا اور پھر اخراجات بھی مرکزی قیادت کی طرف سے کئے گئے،اس ساری تگ و دو کے بعد بھی بات جیت تک نہ آئی، نشست تو واپس مسلم لیگ(ن) نے جیتی،البتہ اس جماعت کو بھی ووٹوں کی کمی کھٹکی اور خانیوال میں زیادہ محنت کی گئی۔ان حالات میں پیپلزپارٹی کو بغلیں بجانے کی بجائے یہ سوچنا ہو گا
کہ آخر یہ سب ہے کیا؟ تو بات واضح ہے۔تاحال مسلم لیگ(ن) کا ووٹ متاثر نہیں ہو سکا اور ان حالات نے تحریک انصاف کا وہ ووٹ واپس کرانا شروع کر دیا ہے،جو اپنی جماعتوں سے ناراض ہو کر ادھر گیا تھا۔ان میں اکثریت تو پیپلز پارٹی والوں ہی کی تھی،جو اپنی جماعت کی کمزوریوں سے تنگ آ کر تحریک انصاف کی حمایت کرنے لگے تھے۔آج کے حالات میں پاکستان کا ہر فرد ملک کے مستقبل کے بارے سوچتا ہے تو پریشان ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے بدعنوانی کے الزامات اور پروپیگنڈے کی وجہ سے یہ اثر تو ہوا کہ کنارے بیٹھے لوگ متاثر ہوئے،لیکن بعد میں ضمنی انتخابات تو یہی ثابت کر رہے ہیں کہ ووٹر ٹس سے مس نہیں ہوا،اور مسلم لیگ(ن) کو اب جدوجہد کی علامت بنا بیٹھا ہے،اس سلسلے میں میری ذاتی رائے یہ ہے
کہ اس کا ذمہ دار تحریک انصاف کا میڈیا اور بیانیہ ہے، جس کی طرف سے اتنا زیادہ کچھ کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) والوں کو مسلسل اور مفت پبلسٹی ملتی رہی کہ ”بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا“ والا معاملہ بن گیا۔ان سطور میں ہمیشہ جمہوری عمل اور محاذ آرائی چھوڑ کر قومی اتفاق رائے کی تجویز پیش کی گئی۔یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ثابت ہوئی کہ جو کر رہے ہوتے ہیں ان کو نصیحتوں اور تجاویز کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ان کا ایجنڈا بھی اپنا ہی ہوتا ہے۔
اب تو بساط بچھانے والوں کو بھی کچھ اور سوچنا پڑے گا کہ اگر حالات ایسے ہی ہیں تو اس کا ایک ہی مطلب ہےکہ برصغیر کے حالات کی روشنی میں ا ن کی بساط اب کام نہیں آ رہی،اس لئے یہی لوگ اٹھیں گے تو بات بنے گی۔ عوام جس قدر معاشی حالات سے پریشان ہیں اور برسر اقتدار حضرات کے پاس کوئی جواز نہیں،بلکہ بہت سے نوجوان بھی پریشان ہیں،ڈاکے بڑھ گئے،اب تو دکاندار بھی عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں۔ ایسے میں صرف وہی جماعت کچھ مقبول ہو سکے گی،جو عوامی مسائل کے حوالے سے اپنی سیاست متعین کرے گی۔پیپلزپارٹی اپنے منشور اور پروگرام کے حوالے سے ایک لبرل جماعت ہے۔اس کا پھلنا پھولنا عوام کے لئے مفید ہوتا ہے،اس لئے اسے گھر کی لونڈی نہ بنائیں اور عوام کے حقیقی مسائل اجاگر کر کے ان کی حمایت حاصل کریں۔تحریک انصاف کو اب تو مان لینا چاہئے کہ ملکی حالات کے باعث ہی شہرت اور ووٹ ملیں گے۔