اس کڑی شرط پر پھر کون پورا اترا؟
لاہور (انتخاب : شیر سلطان ملک ) 26 دسمبر 1782ء سے لے کر 4 مئی 1799ء کو شہادت تک ٹیپو سلطان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ اگر کوئی حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے مردِ مومن کو مجسم صورت میں دیکھنا چاہے تو وہ ٹیپو سلطان کو دیکھ لے۔ علامہ محمد اقبال کے نزدیک
نامور مضمون نگار شاہد رشید روزنامہ نوائے وقت میں اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امامت یا حکمرانی کے لئے صداقت‘ عدالت اور شجاعت کے اوصاف ضروری ہیں۔
ٹیپو سلطان میں یہ تینوں اوصاف مجسم ہوچکے تھے۔ وہ جذبۂ حب الوطنی اور شوقِ شہادت سے سرشار تھے۔ ان کی صبح کا آغاز نماز فجر اور تلاوت قرآن مجید سے ہوتا اور رات سونے سے قبل غسل کرتے
اور مختلف اوراد و وظائف پڑھتے۔ انہوں نے سرنگا پٹم میں ایک انتہائی خوبصورت اور پر شکوہ ’’مسجد اعلیٰ‘‘ تعمیر کرائی۔ 1790ء میں عید الفطر کے دن اس میں پہلی نماز پڑھنے کا وقت آیا
تو اس موقع پر اپنے وقت کے جید مشائخ عظام‘ علمائے کرام اور زاہد و عابد موجود تھے۔ ٹیپو سلطان کی تمنّا تھی کہ اس افتتاحی نماز کی امامت کوئی ایسی بزرگ شخصیت کرے
جس کی کوئی فرض نماز کبھی قضاء نہ ہوئی ہوتاہم کوئی آگے نہ آیا۔ چنانچہ ٹیپو سلطان کو امامت کی سعادت خود حاصل کرنا پڑی جس سے ان کے اعلیٰ درجہ کے باعمل مسلمان ہونے کا پتہ چلتا ہے۔