in

غریبوں اور مسکیوں پر مال خرچ کرنے کا معجزہ، چند ہفتے قبل لاہور کے ہسپتال میں کیسا حیران کن واقعہ پیش آیا

غریبوں اور مسکیوں پر مال خرچ کرنے کا معجزہ، چند ہفتے قبل لاہور کے ہسپتال میں کیسا حیران کن واقعہ پیش آیا

نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔

لاہور کے ایک انتہائی مہنگے اور جدید ہسپتال کے آئی سی یو کے باہر تین چار امیر تاجر سینئر ڈاکٹروں کے سامنے ہاتھ جوڑے انکی منتیں کرتے ہوئے دیکھے گئے تھے
“ڈاکٹر! میں ابھی آپ کو ایک کروڑ یا دو کروڑ دینے کو تیار ہوں۔
اللہ کا واسطہ ہے کہ میرے بچے کو بچا لے۔ “

 تمام ڈاکٹرز مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے انہیں سمجھا رہے تھے کہ معاملہ اب میڈیکل سائنس سے نکل کر خدا کے ہاتھوں میں جا چکا ہے، آپ اللہ سے اپنے بچے کی زندگی مانگئے۔ایک نوجوان‘ جو شاید کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتا تھا‘ کا بچہ پیدا ہوتے ہی نجانے کس پیچیدہ بیماری میں مبتلا ہو گیا کہ اسے فوری طور پر آئی سی یو میں ایڈمٹ کر لیا گیا اور نوجوان کو فوری طور پر دس لاکھ روپے جمع کرانے کا کہا گیا۔

وہ چند گھنٹے کی مہلت لے کر گیا اور جب واپس آیا تو پسینے میں شرابور تھا۔ ہاتھوں میں پکڑے نوٹوں کے بنڈل لیے وہ تیزی سے کیش کائونٹر کی جانب بڑھا۔ تھوڑی دیر بعد پتا چلا کہ وہ اپنی نئی گاڑی ایک شو روم پر بیچ کر آیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنے بچے کی زندگی بچانے کے لئے اگر اسے اپنا گھر بھی بیچنا پڑا تو وہ ایک لمحے کا توقف نہیں کرے گا۔

مڈل کلاس کا ایک خاندان‘ جس کو قدرت نے بیس برس بعد پوتے کی شکل میں نرینہ اولاد سے نوازا تھا‘ ابھی خوشیاں منا ہی رہا تھا کہ نومولود کو اپنی پیدائش کے دوسرے ہی دن کچھ ایسی تکلیف ہوئی کہ اسے لاہور کے اسی ہسپتال کے چائلڈ آئی سی یو میں داخل کرا دیا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا

کہ شاید بیس برس بعد ان کے آنگن میں کھلنے والا یہ پھول انہیں زندگی بھر کا دکھ دے جائے گا۔
ہر ماہ کے اولین دنوں میں اس خاندان کا سربراہ ایک بیوہ اور اس کے دو معصوم بچوں کو راشن بھجوایا کرتا تھا جبکہ بجلی کے بل اور ماہانہ گزارے کیلئے بھی کچھ رقم بغیر کسی ناغے کے انہیں مل جاتی تھی۔ جب نومولود پوتے کی سانس کی ڈوری ٹوٹنا شروع ہوئی اور ڈاکٹروں نے بے بسی سے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے انہیں دعا کرنے کا کہا تو دادا کی آنکھیں دکھ اور تکلیف سے نمناک ہو گئیں اور اس نے وہیں ہسپتال کی انتظار گاہ میں سجدے میں گر کر اللہ سے بچے کی زندگی کے لیے رو رو کر فریاد کرنا شروع کر دی۔

سجدے کی حالت میں ہچکیاں لیتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک منظر گھوم گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہی بیوہ اور یتیم بچے‘ جنہیں ہر ماہ وہ راشن اور کچھ رقم بھیجتا ہے‘ ہاتھ اٹھائے آسمان کی طرف منہ کیے اس کے پوتے کی طویل عمر اور اچھی زندگی کیلئے دعا کر رہے ہیں۔ پھر وہ معجزہ اس ہسپتال کے ڈاکٹرز سمیت سب نے دیکھا کہ سجدے میں گرے دادا جی اور بچے کے باپ کو وہیں انتظار گاہ میں خبر دی گئی کہ بچے کی سانسیں بحال ہو گئی ہیں اور اب بچہ خطرے سے باہر ہے۔ پھر دو دنوں بعد وہ بچہ صحت مند ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔آئی سی یو اور سی سی یو کے باہر ہسپتال کی ایئر کنڈیشنڈ اور آرام دہ انتظار گاہ میں بے چینی سے گھومتے ہوئے جوڑے کبھی ہسپتال کے انچارج اور توکبھی کسی سینئر اور اپنے شعبے کے ماہر پروفیسرز کے کمروں میں

لاکھوں روپے لیے ایسے بھاگ دوڑ کر رہے تھے جیسے ان کی کوئی بہت ہی قیمتی چیز کہیں گم ہو گئی ہے جسے یہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ جیسے ہی آئی سی یو کا دروزہ کھلتا‘ یہ لوگ بھاگ کر وہاں سے نکلنے والے کی منت سماجت کرنے لگتے۔ یہ تو ظاہر تھا کہ چونکہ یہ ایک انتہائی مہنگا اور مشہور ہسپتال ہے‘ لہٰذا یہاں کوئی شوق سے، گھومنے پھرنے یا ہسپتال کو شاپنگ مال سمجھ کر نہیں آتا، اور یہ وارڈ تو ویسے بھی پیدائش کے فوری بعد نومود بچوں کی بیماریوں یا ان کے وجود میں پیدا ہونے والے کسی پیچیدہ نقص کے علاج کیلئے مخصوص تھا۔ جب آئی سی یو وارڈ سے سٹاف نے اُس بچے سے متعلق بتایا کہ وہ اب نارمل ہو کر سانسیں لے رہا ہے تو سب حیران ہونے لگے۔ یہ خبر آئی سی یو سمیت کیش کائونٹراور لیبارٹری سے ہوتے ہوئے پورے ہسپتال میں پھیل چکی تھی۔

نرسیں اور دوسرا سٹاف اس خاندان کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ایسے میں وہ دوسرے مریض اور ان کے لواحقین جو کروڑوں روپے دیتے ہوئے اپنے بچوں اور عزیزوں کی زندگیوں کے لیے تڑپ رہے تھے‘ فوری طور پر بچے کے دادا جان کی طرف بھاگے اور آ کر ان سے پوچھنے لگے: انکل جی آپ نے سجدے میں گر کر روتے ہوئے جو دعا مانگی تھی‘ ہمیں بھی بتا دیں، اس پر انہوں نے کہا: بیٹا دعا میں نے نہیں‘ ایک بیوہ اور اس کے دو یتیم بچوں نے مانگی تھی، میں تو بس سجدے میں گرکر بے بسی سے رو رہا تھا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

’’نواز شریف واپس آئیں گے اور چوتھی بار وزیراعظم بنیں گے‘‘ اب تک کا سب سے بڑا دعویٰ

رحیم یار خان سے پیرس پیسہ کمانے گئے مسلمان پاکستانی کا انتقال ،بیٹا اسلام سے نا آشنا نکلا ، باپ کی پینٹ کوٹ اور ٹائی میں تدفین ،