میرے مرنے کے بعد کوئی فنکار میرے جنازے میں نہ آئے۔۔۔معروف پاکستانی اداکارہ نے ایساکیوں کہاتھا؟
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستانی شوبز میں ایسے کئی ستارے گزرے جنہوں نے کامیابی کی چوٹیاں سر کیں لیکن ان کی زندگی کے کئی باب ہمیشہ بند ہی رہے۔۔۔ان کی شخصیت میں ایک طرح کا کھنچاؤ ہمیشہ رہا جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان کے بارے میں جاننے سے ہچکچاتے بھی رہے۔
ان میں سے ایک تھیں خالدہ ریاست جو چوبیس برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔۔۔ یہ وہ اداکارہ تھیں جن کا مزاج ہمیشہ سے کافی سنجیدہ تھا۔۔۔ایک الگ ہی دنیا میں تھیں جس سے اردگرد کے سبھی لوگ انجان رہتے تھے۔۔۔کراچی میں پیدا ہوئیں اور گریجویشن تک تعلیم حاصل کی۔۔۔۔خالدہ ریاست نے پی آئی اے میں فضائی ہوسٹس کے فرائض بھی انجام دئے
اور پھر ایک سعودی ایئر لائنز میں بھی ملازمت کی لیکن وہاں کی پابندیاں ان کے لئے ناقابل برداشت تھیں۔۔۔وہ کسی بھی صورت اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتی تھیں۔۔۔ جب ڈرامہ کی دنیا میں قدم رکھا تو انہیں عظمیٰ گیلانی اور روحی بانو کے ساتھ ہی صف اول کی اداکاراؤں میں ہی شمار کیا جاتا۔۔۔ان کا پہلا پلے تو ’’نامدار‘‘ تھا لیکن انہیں شہرت حسینہ معین کے لکھے شاہکار ’’بندش‘‘ سے ملی۔۔۔
ویسے تو زیادہ تر انہوں نے سنجیدہ ڈراموں میں کام کیا لیکن چند مزاحیہ کرداروں میں بھی انہوں نے خود کو ثابت کیا۔۔۔ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ خالدہ ریاست اداکارہ عائشہ خان کی چھوٹی بہن بھی ہیں اور انہوں نے اپنی زندگی کے کئی ایام بہت سختیوں اور دکھ میں بھی گزارے۔ انہوں نے اپنے کیرئر کے دوران کئی کامیاب ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔
جن میں ’’نامدار‘‘، ’’بندش‘‘، ’’پڑوسی‘‘، ’’کھویا ہوا آدمی ، ’’دو کنارے‘‘ جیسے کئی لازوال نام شامل ہیں۔۔۔1975 میں جب پاکستان ٹیلی ویژن پر رنگین نشریات کا آغاز ہوا تو خالدہ ریاست کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ لاہور سینٹر سے پہلے ڈرامہ میں کاسٹ ہوئیں ’’ پھولوں والوں کی سیر‘‘۔۔۔اس میں انہوں نے آصف رضا میر کے مد مقابل کام کیا اور بہترین ثابت ہوئیں۔۔۔ لاہور میں جب رہتی تھیں تو وہاں کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر اور رائٹر سرمد صہبائی سے شادی کی
لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے نباہ نا ہوسکا ۔۔۔خالدہ نے دوسری شادی ایک سیاستدان سے کی جن کا تعلق جھنگ سے تھا۔۔۔ایک انٹرویو میں خالدہ ریاست نے کہا تھا کہ میرے دو بچے ہیں ایک دو سال کا اور ایک تین ماہ کا لیکن میں ابھی اپنی شادی کا اعلان نہیں کر سکتی۔۔۔شاید تین سے چار ہفتوں میں کردوں۔۔۔اس کی وجوہات سیاسی ہیں۔۔بعد میں فیصل صالح حیات کا نام سامنے آیا لیکن خالدہ ریاست نے خود کبھی ان کا نام نہیں لیا۔۔۔۔مشہور اداکار راجو جمیل کا کہنا ہے کہ میں خالدہ سے ان کے انتقال سے چھے ماہ پہلے ایک ہسپتال میں ملا تو میں نے پوچھا کہ یہاں کیسے۔۔۔کہنے لگیں کہ کبھی کبھی بیماری کی اداکاری بھی کرنا چاہئے۔
لوگوں کی توجہ ملتی ہے۔۔۔میں اس وقت بہت ہنسا لیکن سچ تو یہ ہے کہ خالدہ اس وقت بھی ایک جنگ لڑ رہی تھیں۔۔۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کھل کر کہا کہ ہم ٹی وی والوں کو جب فلم میں لیتے ہیں تو لیڈ رول نہیں دیتے بلکہ شبنم اور ندیم کے ساتھ ایک سائیڈ رول دے دیتے ہیں۔۔۔ہم بھی بہت اچھا کام کرتے ہیں کبھی ندیم کے ساتھ صرف مجھے کردار دے کر دیکھتے۔۔۔ہم زیادہ بہترین اداکاری کرتے۔۔
۔ان کی اس بات سے فلم انڈسٹری کے کچھ لوگ خفا بھی ہوئے لیکن خالدہ ریاست مذاق ہی مذاق میں بہت گہری باتیں بنا ڈرے کر دیتی تھیں۔۔۔ کینسر سے جنگ لڑتے ہوئے انہیں صرف اپنے بچوں کی فکر تھی اور وہ آخری وقت تک ان کا ساتھ دیتی رہیں۔۔۔ایک عجیب و غریب وصیت انہوں نے مرنے سے پہلے کی کہ میرے جنازے میں کوئی شوبز انڈسٹری سے نا آئے اور نا ہی میرے مرنے کے بعد۔۔۔شوبز میں کوئی بھی اس بات کی حقیقت کو آج تک نا جان پایا۔۔۔ خالدہ ریاست بہت کم عمری میں کئی خواب لئے، دل میں درد لئے دنیا سے چلی تو گئیں لیکن لوگ آج بھی انہیں پڑھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی کئی باتوں کا جواب آج تک نہیں مل پایا۔