دعوت دے کر بھوکوں کو بلانا اور پھر کھانا چھپا لینا ، ایسے نہیں ہوتا میری جان ۔۔۔۔!!!!امریکہ میں مقیم پاکستانی خاتون صحافی نے عائشہ اکرم کی ساری گیم پاکستانیوں کے سامنے رکھ دی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاٰ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔چودہ اگست 2021 کو مینار پاکستان پہ کیا ‘‘نیا پاکستان ‘‘کی قرارداد منظور ہوئی تھی ؟غنڈہ گردی لاء اینڈ آرڈر نہ کوئی نظام نہ پولیس نہ حفاظت نہ منظم بندوبست ؟ ہر سال چودہ اگست آزادی پاکستان منایا جاتا ہے یا ‘‘ مادر پدر آزادی’’ منائی جاتی ہے ؟
بچپن کے دریچوں میں جھانکا جائے تو ضیا دور سے پہلے جشن آزادی پاکستان نہیں ہوتا تھا بس سبز ہلالی جھنڈے لہرائے جاتے تھے پھر ضیا دور نے اصل سے توجہ ہٹانے کے لئے جشن اور ایام منانے شروع کر دئیے اور قوم کو جشن آزادی پاکستان کے نام سے دل پشوری کے جواز مہیا کر دئیے ، پھر ہم بڑے ہوئے تو دیکھا منچلے پرچم اٹھائے شرارتیں کر رہے ہیں ، تانگے پر بیٹھی لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے ہیں۔
اس زمانے میں سوشل میڈیا نہ تھا لہٰذا چھوٹے موٹے واقعات منظر عام پر نہ آ سکے۔ لڑکیاں محتاط تھیں مگر یہ جشن آزادی پھر اتنی ترقی کر گیا کہ منچلے تو غنڈے بن گئے لڑکیاں ان سے بھی دو قدم آگے نکل گئیںاور اب نیا پاکستان یہاں آ کھڑا ہوا ہے کہ لڑکیاں منچلوں کو سوشل میڈیا پر دعوت نامہ بھیج کر بلاتی ہیں کہ آئو مجھے چھیڑو۔ پاکستانی مرد بحیثیت باپ بھائی شوہر بیٹا دنیا کا بہترین مرد ہے۔
آج بھی پاکستان میں عورت کی عزت کی جاتی ہے ، چند ایک واقعات سے پاکستان کے مرد عورت کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔ ٹک ٹاکر یو ٹیوبر چند ٹکوں اور سستی شہرت کے لئے پاکستان کی مہنگی عزت کو بیچ رہے ہیں۔ مینار پاکستان کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ ایک ٹک ٹاکر نے مجمع اکٹھا کیا ، اللہ جانے تمام واقعہ میں کیا سچ کیا جھوٹ ہے مگر جو ویڈیو دنیا نے دیکھی اس میں اس ٹک ٹاکر پر غنڈوں کا ایک ہجوم بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑا ،
پھر باقی حقائق خواہ کتنے کڑوے ہوں لونڈوں کی غنڈہ گردی کسی صورت قابل معافی نہیں۔ دوسرے روز اس سے بھی شرمناک واقعہ بھی یوم آزادی کو منظر عام پر آیا جب دو لڑکیاں اپنے کم سن بھائی کے ہمراہ چنگچی رکشہ پر جا رہی ہیں اور موٹر سائیکلوں پر چند لونڈے ٹک ٹاک ویڈیو وائرل کرنے کیلئے ان لڑکیوں کا تعاقب کر رہے ہیں اور ایک لڑکے نے چھیڑنے کی تمام حد پار کرتے ہوئے لڑکی کے ساتھ بیہودہ حرکت بھی کر ڈالی۔
کیا وہ لڑکیاں بھی ٹک ٹاکر تھیں یا عریاں تھیں ؟ بات کو سمجھنا ہو گا کہ اس طرح کی ویڈیوز وائرل کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا کی ویڈیوز اور تصاویر مشکوک ہوتی ہیں ، ایڈٹنگ کر کے سچ اور جھوٹ میں تمیز ختم کر دی جاتی ہے۔ چند لونڈے اور نمبر دو لڑکیوں نے پاکستان کا چہرہ مسخ کر دیا ہے۔ یوم آزادی پر جو ہلڑ بازی اور بدمعاشی کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے ،
چودہ اگست کے روز پورے ملک میں کرفیو لگا دینا چاہئے ، چند برس ایسا کریں ساری قوم سدھر جائے گی۔ یہ آزادی نہیں نسلوں کی بربادی منائی جا رہی ہے۔ دوسرا المیہ لا اینڈ آرڈر ہے ، پورا ملک یتیم ہے ، مری مال روڈ ہے یا مینار پاکستان جیسا پر ہجوم مقام پولیس لسی پی کر سو رہی ہے۔ مغربی ممالک جنہیں کافر کہتے ہو وہاں عریاں عورت کو بھی کوئی نہیں دیکھتا اور کسی عورت کو اس کےساتھ چھیڑ چھاڑ کی جائے
پولیس آس پاس موجود ہوتی ہے ، بندہ قید میں بند ہوتا ہے۔ نیا پاکستان کی تحریک انصاف کا دور تو کچھ زیادہ ہی غفلت کا شکار ہے۔ آئے روز واقعات رونما ہو رہے ہیں اور حکومتی مشینری مکمل بے بس دکھائی دے رہی ہے۔ افغانستان کی فکر پڑی ہوئی ہے کہ تالبان عورتوں پر ظلم کریں گے وغیرہ۔ گند اور بے راہ روی سے متعلق جو حالات پاکستان کے ہو گئے ہیں ،
اب تو یہاں بھی کسی ملا کی ضرورت نہ پڑ جائے۔ ؟مینار پاکستان والی ٹک ٹاکر بھی آسیہ مسیح اور ملالہ یوسف زئی کی طرح باہر جانے کا خواب دیکھ رہی ہے۔پاکستان عورت کے لئے غیر محفوظ ہے ؟ سب بکواس اور مغرب کا پروپیگنڈا ہے۔ مجھ جیسی تن تنہا عورت امریکہ سے آکر بلتستان سکردو سے آگے شگر کے دور دراز دیہاتوں میں گھومتی رہی ، مغرب کی عورتیں پاکستان میں تنہا گھومتی ہیں مجال ہے کبھی کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ عورت کو بھی اپنے لباس وقار کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اچھے برے مرد ہر معاشرے میں ہوتے ہیں جبکہ پاکستان میں جو لڑکیاں مردوں کو کھلے عام دعوت نامے بھیجنے کا کلچر پروان چڑھا رہی ہیں ایسی لڑکیاں کس قماش کی بیویاں اور مائیں بن رہی ہیں کبھی سوچا کسی نے؟