بے شک طالبان کامیاب ہو گئے : مگر اب میری ان سے ایک درخواست ہے ۔۔۔۔۔۔۔ چند ہفتے قبل انتقال کر جانیوالے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے طا لبا ن کو کیا مشورہ دیا تھا ؟ منتخب کالم
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نامور پاکستانی سائنسدان اور کالم نگار ڈاکٹر عبدالقدیر خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں جب 1961میں اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گیا تو دیکھا کہ خوبصورت ترکش عورتیں وہاں فرش، ٹائلٹ دھونے پر مامورتھیں، مجھے بے حد دُکھ ہوتا تھا مگر وہ بے چاری مجبور تھیں، ملک میں چور لٹیرے محلات میں بیٹھے عیاشی کررہے تھے۔
عوام بھوکے بلک رہے تھے اور عزّت بیچنے پر مجبور تھے۔ موجودہ صدر اردگان نے پہلی مرتبہ قوم کو وقار اور عزت دی۔ اس سے پہلے وزیر اعظم بلند ایجوت نے اس کی بنیاد ڈال دی تھی، ﷲ بخشے بے حد نفیس انسان تھے‘ میں ان سے 1978میں ملا تھا۔ یہی حال پچھلے چند برسوں سے افغانستان میں تھا۔ ایک بہادر، غیّور قوم کو چور، نااہل، حکمرانوں نے دنیا میں فقیر،مجرم بنا کر پیش کردیا اور عوام روٹی کے ٹکڑوں کو ترس گئے۔
ان لوگوں نے حکومت میں، فوج میں، نوکریاں کیں مگر حکومت کی حمایت یا مدد کرنے کے لئے نہیں بلکہ عزّت، دو وقت کے کھانے کے لئے کی تھیں۔ ہمارے ملک میں لاکھوں افغان مہاجرین آئے، محنت کی اور عزت کی زندگی گزارنے کی کوشش کی۔ ان کے مزاحمت نہ کرنے کی وجہ کمزوری یا بزدلی نہ تھی۔ وہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے یہاں ٹھہرے رہے اور وقت گزاری کرتے رہے مگر جوں ہی ان کے بہادر جوان آئے اُنھوں نے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔
جو چند چور تھے وہ کروڑوں ڈالر لے کر فرار ہوگئے۔ ہمارے یہاں بھی یہ چیز عام رہی ہے۔ ہمارے لوگ کیسے مشرقی پاکستان سے بھاگے تھے۔امریکی صدر اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حکومت میں موجود افغان بزدل تھے، ڈرپوک تھے۔ چند حکمران، خودغرض، لالچی ضرور بزدل ہوں گے، عوام نہیں۔ افغانوں کی تاریخ شجاعت سے بھری پڑی ہے۔
گویا ہم محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، احمد شاہ ابدالی کو کبھی بھول سکتے ہیں، کیا ہم سکھوں کاجو حشر اور انگریزوں کو جو سبق افغانوں نے پڑھایا تھا ، بھول سکتے ہیں۔ایک ملک کی جدّوجہد میں 20سال کا وقت زیادہ نہیں ہوتا مگر ایک انسان کی عمر میں 20سال بہت ہوتے ہیں۔ انھوں نے 20سال لڑ کے خود آزادی حاصل کی ہے ان کو آزادی کی قیمت کا اندازہ ہے۔
الجیریا کے قومی ہیرو احمد بن بیلا نے بھٹو صاحب کو دارالحکومت کے باہر قبرستان دکھایا تھا جہاں تحریک آزادی کے لاکھوں کارکن مدفون تھے اور کشمیر کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ آزادی قربانی سے ملتی ہے ، تازہ مثال ویتنام اور افغانستان ہے۔ دنیا کی ایٹمی قوتیں ان کے جذبہ کو مندمل نہ کرسکیں اور نہ ان کو ’’اسٹون ایج‘‘ کی وارننگ کا سن کر ڈر لگا۔ آج بھی سامنے کھڑے ہوکر کہہ رہے ہیں کہ اگر کسی کو اب بھی غلط فہمی ہے
کہ ہمیں ڈرا کر من مانی کرلے گا تو کوشش کرلے، ہم تیار ہیں۔ﷲ پاک افغان، پٹھان بھائیوں پر اپنا رحم و کرم قائم رکھے ان کی رہنمائی فرمائے اور اسے دنیائے اسلام کی ایک مثالی قوم اور مثالی ملک بنا دے۔ آمین۔ ثم آمین یا رب العالمین۔ ان سے ایک درخواست ہے کہ احکاماتِ اِلٰہی اور سنتِ رسولﷺ (خطبہ حجتہ الوداع) پر صدق دل سے عمل کریں۔