پاکستانی اداکاروں کا “دی اینڈ” اتنا خراب کیوں ہوتا ہے ؟
آرٹیکلز
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔جہاں روحی بانو اکلوتے بیٹے کے زندگی سے محروم کردیے جانے کے بعد پاگل ہو کر گلیوں ،بازاروں میں رُل جائے ، جہاں اداکار علی اعجاز کی کل جمع پونجی ذاتی مکان پر یوں قبضہ ہو کہ مقدمہ بازی میں یہ
وقت آجائے کہ ایک دن وہ علی اعجاز جس کے گیراج میں نئے ماڈل کی گاڑیاں کھڑی رہتیں۔وہ رکشے کے انتظار میں منہ چھپا کر سڑک پر کھڑا ملے، قریب سے دولڑکے گزریں،ایک کہے، ارے یہ تو اداکار علی اعجاز لگ رہا، دوسرا بولے، یہ یہاں سڑک پر کیوں کھڑا ہوا، پہلا کہے، لگ رہا رکشے ،ٹیکسی کا انتظار کررہا، دوسرا کہے، یار ان اداکاروں کا The endاتنا خراب کیوں ہوتا ہے۔علی اعجاز بتایاکرتے، یہ بات یوں نشتر بن کر میرے دل کو لگی کہ میں وہیں سڑک کنارے بیٹھ کر دھاڑ کر رونے لگا، جہاں اسٹیج کا بادشاہ امان اللہ آخری عمر میں کل کے لونڈے لپاڑوں سے ڈانٹیں سہتا رہے، اسے روز یہ سننا پڑ ے کہ’’ امان اللہ اب تم ختم ہو چکے‘‘، جہاں ا سٹیج کی رونق ایوب اختر المعروف ببو برال کو بیمار ہوکر حمزہ شہباز کے خیراتی پیسوں کا انتظار کرنا پڑے۔جہاں اداکار ، گلوکار، ہدایتکار ،مصنف ،کمپیئر، نجانے کیا کیا ،سعید خان المعروف رنگیلا زندگی کے آخری لمحوں میں پہنچے تواسے بھی ’ امداد‘کی ضرورت پڑجائے، جہاں اسٹیج اداکار غیاث الدین المعروف شوکی خان کار حادثے میں چل بسے تو اسکے خاندان کی کوئی پلٹ کر خبر نہ لے، جہاں دو ہزار اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے والے مرتضیٰ حسن المعروف مستانہ کا ہیپاٹائٹس سی بگڑ کر جگر کا سرطان بنے۔باہر علاج کیلئے پیسوں کا انتظام نہ ہو پائے اور وہ بہاولپور کے ایک اسپتال میں ان سے جائے، جہاں جمیل فخری جیسے اداکار کا جواں سال بیٹا ایاز فخری امریکہ میں لاپتا ہو تووہ یہاں
روزحکومتی دروازے کھٹکھٹا ئے ، روز سرکاری دفتروں کے چکر لگائے ،روز کہے ، حکومتی سطح پر امریکہ میں میرے لاپتا بیٹے کا پتا چلایاجائے، پھر ایک دن جب اسے پتا چلے کہ بیٹا کسی نے زندگی سے محروم کردیا تو دفتر دردفتر رُلتے جمیل فخری کو برین ہیمرج ہو۔کومے میں جائے اور وہاں سے سیدھا مرحوم بیٹے کے پاس جاپہنچے ، جہاں مشہور ٹی وی ڈرامے’عینک والا جن‘ کی نصرت آرا المعروف بل بتوڑی دو وقت کی روٹی کو ترستی مرجائے، جہاں زوال آنے کے بعد وحیدمراد لاہور کی ایک مارکیٹ میں اکیلا کھڑا ہو اور کوئی سلام لینے والا نہ ہو، جہاں اوول کا ہیرو کرکٹرفضل محمود لاٹھی کے سہارے چلتا سڑک پر لوگوں کو روک روک کر کسی دفتر کا پتا پوچھنے کی کوشش کر رہا ہو اور کوئی رُک کر پتا نہ بتا رہا ہو۔ جہا ں چھوٹے قد کے بڑے فنکار جاوید کوڈو فالج حملے کے بعد چلنے پھرنے سے قاصر ہوںتو سب نظریں پھیر لیں ،جہاں عمر شریف جیسے لیجنڈ کیلئے بیرون ملک علاج کیلئے پیسوں کا انتظام ہوتے ہوتے اتنا وقت گزر جائے کہ عمر شریف رستے میں ہی خالقِ حقیقی سے جاملے۔جہاں شوبز مطلب ایک شعبے میں ایسی بے حسی کی بیسوؤں مثالیں ہوں، جہاں ادب ، صحافت ،کھیل سمیت ہرمیدان میں ایسی بے رحمی،بے کسی کی سینکڑوں مثالیں موجود ، وہاں مجھے علمِ شاکر شجاع آباد ی کیلئے رونا دھونا، اس حوالے سے کچھ لکھنا ، کہنا فضول، لیکن کیا کروں ، دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر لکھنے پر مجبور۔اپنی طرز کے نامور
شاعر، جنوبی پنجاب کی محرومیوں کی آواز بلکہ جنوبی پنجاب کے شیکسپیئر، شاکر شجاع آبادی کس حال میں یہ سب دیکھ ،سن چکے،گو کہ معذوری ،محرومی ،غریبی بھری ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انہیں سندھ حکومت سے 10لاکھ مل چکے، حکومت پنجاب کے 3لاکھ بھی ان تک پہنچ چکے، جہانگیر ترین امداد کرچکے۔وظیفہ لگا چکے، وہ ایک سرکاری اسپتال میں داخل بھی ہوچکے مگر دکھ یہ، لودھراں کے نواحی علاقے چاہ بٹے والے میں پیدا ہونے، مٹھو بستی (شجاع آباد)، راجہ رام (ظریف) میں بچپن،لڑکپن گزارنے والے 66سالہ شاکر شجاع آبادی کی اگر وہ ویڈیو سامنے نہ آتی جس میں بڑھی داڑھی ،میلے کچیلے کپڑوں اور ٹوٹے جوتوں میں فالج زدہ شاکر شجاع آبادی کو ان کے ایک عزیز موٹر سائیکل پر اپنے ساتھ باندھ کر اسپتال چیک اپ کیلئے لے جارہے۔ ان کے عزیز نے انہیں موٹر سائیکل پر اسلئے اپنے ساتھ باندھ رکھا تھاکہ شاکر شجاع آبادی اس قابل بھی نہیں کہ خود موٹر سائیکل پر بیٹھ سکیں ، بیٹھ کر توازن برقرار ر کھ سکیں ، اگر یہ ویڈیو سامنے نہ آتی، تو لہو دا عرق، پتھر موم، بلدین ہنجو، پیلے پتر جیسی کتابوں کے مصنف ،خود بولنے سے سے محروم مگر آواز سے محروم طبقے کی آواز شاکر شجاع آبادی کیا ایسے ہی رُل رُل جاتے۔دکھ یہ بھی، سات دن کی عمر میں ٹائیفائیڈ بخار کا شکار ہو کر آج مختلف بیماریوں ،فالج ،غربت کے پے درپے اٹیکس سے زندہ میت بنے شاکر شجاع آبادی جو بولنے کی کوشش میں بڑبڑائے ،اس بڑبڑاہٹ کو ان کا بیٹا ٹرانسلیٹ کر کے آگے بتائے ،
اتنے بڑے شاعر اس حال تک کیوں پہنچے، دکھ یہ بھی، بچپن میں بہاولپور فروٹ ،سبزی منڈی میں سارادن مزدوری کرکے 5روپے کما کر گھر لانے اور بیمار ماں کا علاج کرنے والے حکیم کو دوائی ،علاج کے نام پر 5روپے دے کرروزانہ پیا ز کیساتھ روٹی کھا کر سوجانے والے شاکر شجاع آبادی آج اس حال تک نہ پہنچتے اگر انکا بروقت علاج ہوجاتا۔انہیں علاج کیلئے امریکہ بھیج دیا جاتا ، کوئی حکومت ڈیڑھ کروڑ کا خرچہ برداشت کر لیتی ، دکھ یہ بھی ، شاکر شجاع آبادی کے دو بیٹے ،تین بیٹیاں، سب بے روزگار، کئی بار بیٹوں نے درخواستیں دیں کہ اگر ہمیں ہی نوکری مل جائے تو ہم اپنے باپ کا خرچ اٹھا لیں مگر نہ یہ پرانے پاکستان میں ہوا اور نہ اب نئے پاکستان میں ہورہا، ہاں ایک بار کسی سرکاری بابو نے شاکر شجاع آبادی کے پڑھے لکھے بیٹے پر ترس کھا کراسے جمعدارکی نوکری کی پیشکش کی مگر بعد میں وہ اس پیشکش سے بھی مُکر گیا۔لیکن سب سے بڑا دکھ یہ،گزرے سواتین سالوں سے پنجاب مطلب آدھے پاکستان کا حکمران سائیں عثمان بزدار ،جو شاکر شجاع آبادی کی طرح خود بھی جنوبی پنجاب کے، جن کو بقول عمران خان وزارت اعلیٰ اسلئے ملی کہ ان کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے، خود اتنے پسماندہ کہ اپنے گھر میں بجلی نہیں اور جنوبی پنجاب کی پسماندگی دورکرنے کی شدید خواہش انکے دل میں، اس سائیں عثمان بزدار کی سوا تین سالوں میں شاکر شجاع آبادی پر نظر نہ پڑی۔انکے بچوں کو نوکری،کوئی سرکاری وظیفہ ،کوئی علاج ،سائیں بزدار نے جنوبی پنجاب کی پسماندگی دورکیا کرنی تھی وہ تو ایک شاکر شجاع آبادی کی پسماندگی دور نہ کرپائے، ہاں یہ سنا جارہا کہ سائیں بزدار نے اپنی کیا اپنی سات نسلوں کی ’پسماندگی ‘ دور کرلی۔