یہ سب دراصل کس کی سفارش پر ہوا تھا ؟
آرٹیکلز
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جنرل سعید قادر تفصیلات بتا چکے کہ کیسے شریف خاندان پر جنرل ضیاالحق اچانک مہربان ہو گئے‘ کیونکہ انہیں بھٹو کی سیاست کے خلاف پنجاب میں لیڈر چاہئے تھا تو بریگیڈیئر محمود کو یقین نہیں آ رہا تھا
کہ حکام یہ نیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پہلے بھٹو کو ختم کیا گیا اور اب پیپلز پارٹی کو ختم کرنا تھا اور اس کا آغاز پنجاب سے ہو چکا تھا۔ ایک صنعت کار‘ جسے بھٹو سے ذاتی پُرخاش تھی‘ کو نہ صرف فیکٹری واپس کی گئی بلکہ کروڑوں روپوں کا نقصان بھی معاف کیا اور دو ہزار سے زائد ورکرز بھی نکال دیے گئے۔ الٹا پچاس کروڑ کے قریب گرانٹ بھی دی گئی کہ وہ اپنا کام شروع کریں۔ رہی سہی کسر جنرل غلام جیلانی خان نے گورنر پنجاب لگ کر پوری کر دی جب اتفاق فاؤنڈری کے مالک کے ایک بیٹے کو‘ جس کے پاس تجربہ یا مطلوبہ تعلیم بھی نہ تھی‘ پنجاب جیسے بڑے صوبے کا پہلے وزیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ اعلیٰ لگا دیا گیا۔ اس کام میں جنرل غلام جیلانی خان پیش پیش تھے اور پیچھے جنرل ضیاالحق کی حمایت اور مارشل لاء کی طاقت تھی۔برسوں بعد کتاب لکھتے ہوئے بریگیڈیئر محمود نے لکھا کہ اب وہی شریف خاندان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انہوں نے ان تھک محنت سے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے‘ ساری دولت جنرل ضیاالحق اور جنرل جیلانی خان کی مرہون منت تھی کہ وزیرِ خزانہ اور وزیرِ اعلیٰ بن کر اپنے خاندان اور کاروبار کو فوائد پہنچائے گئے جس میں کسی رُول یا قاعدے کا خیال نہ رکھا گیا اور اس طرح وہ ارب پتی بن گئے۔ فاؤنڈری کے مالکان کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل ضیا اور ان کا دشمن سانجھا نکل آیا جس کا نام بھٹو اور پیپلز پارٹی تھا‘ جس کا انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ جنرل ضیاالحق تو چند برس بعد طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے لیکن نواز شریف کی سیاست اور اتفاق فاؤنڈری کا کاروبار چل نکلا۔ انہیں اب جنرل ضیاالحق یا جنرل جیلانی کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ اب اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے تھے۔