شراب نہ پیؤ ں گا تو کیا ہو گا
ایک مرتبہ جگر مراد آبادی بیٹھے ہوئے تھے کہ دل میں خیال آیا کہ شراب نہ پیؤں گا تو کیا ہو گا؟ اگر میں اللہ کو ناراض کر بیٹھا اور نفس کو خوش کر لیا تو کیا فائدہ ہو گا‘ چنانچہ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے پینے سے توبہ کر لی‘ چونکہ بہت عرصہ سے پی رہا تھا اس لئے بیمار ہو گیا۔ ہسپتال گئے‘ ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک دم چھوڑنا تو
ٹھیک نہیں‘ تھوڑی سی پی لیں وگرنہ موت آ جائے گی‘پوچھنے لگے تھوڑی سی پی لوں تو زندگی کتنی لمبی ہو جائے گی؟انہوں نےکہا کہ دس سال‘ کہنے لگے دس پندرہ سال کے بعد بھی تو مرنا ہے بہتر ہے کہ ابھی مر جاؤں تاکہ مجھے توبہ کا ثواب مل جائے‘ چنانچہ پینے سے انکار کر دیا‘ اسی دوران ایک مرتبہ عبدالرب نشتر
سے ملنے گئے‘ ماشاء اللہ وہ اس وقت وزیر تھے ان کا تو بڑا پروٹوکول تھا یہ جب ان سے ملنے گئے تو چوکیدار نے سمجھا کہ کوئی مانگنے والا فریاد لے کر آیا ہو گا‘ چنانچہ اس نے کہا جاؤ میاں! وہ مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا اپنے پاس سے کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکالا اور اس پر ایک مصرعہ لکھ کر
عبدالرب نشتر کو بھیجا کیونکہوہ بھی صاحب ذوق تھے عجیب مصرعہ لکھا۔نشتر کو ملنے آیا ہوں میرا جگر تو دیکھ۔۔۔ جب کاغذ کا پرزہ وہاں گیا تو عبدالرب نشتر اس پرزہ کو لے کر باہر نکل آئے‘ کہاں جناب! آپ تشریف لائے ہیں اور اندر لے گئے‘ بٹھایا اور حال پوچھا‘ چنانچہ بتایا کہ زندگی کا رخ بدل لیا ہے‘ تھوڑے عرصے
کے بعد چہرے پر سنت سجا لی‘ لوگ ان کو دیکھنے کیلئے آتے تو انہوں نے اس حالت پر بھی شعر لکھ دیا‘ اب چونکہ طبیعت سے تکلفات ختم ہو گئے تھے‘ سادگی تھی اس لئے سیدھی سیدھی بات لکھ دی فرمایا:چلو دیکھ آئیں تماشا جگر کاسنا ہے وہ کافر مسلمان ہوا ہےشیخ کامل کی صحبت سے جگر پر پھر ایسی واردات ہوتی
تھیں کہ عارفانہ اشعار کہنا شروع کر دیئے۔ چنانچہ ایک وہ وقت بھی آیا کہ اللہ رب العزت نے ان کو باطنی بصیرت عطا فرما دی‘ ایک ایسا شعر کہا جو لاکھ روپے سے بھی زیادہ قیمتی ہے اس ساری تفصیل کے سنانے کا اصل مقصد بھی یہی شعر سنانا ہے :میرا کمال عشق میں اتنا ہے بس جگر وہ مجھ پہ چھا گئےمیں زمانے پہ چھا گیا.