جنت میں اب نعت کا ہدیہ پیش کریں گے، اسکول میں انتظامیہ کی لاپرواہی نے والدین کو ساری زندگی کا روگ دے ڈالا
ربیع الاول کے مہینے کے آغاز سے ہی اس کے حوالے سے تقریبات اور میلاد شریف کے انعقاد کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں ہر عمر کے افراد بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور محفلوں کا انعقاد ہوتا ہے جس میں اسکولوں میں میلاد کی محفلیں بھی شامل ہیں-
اپنے زمانہ طالب علمی میں ہر ایک نے ان محافل میں مذہبی جوش و خروش سے شرکت لازمی کی ہو گی جس میں اساتذہ اچھی آوازوں والے بچوں کو ہدیہ نعت پیش کرنے کے لیے چنتے ہیں اور اس کے بعد ان بچوں کو ہفتہ بھر پریکٹس کروائی جاتی ہے اور جن بچوں کا نعت پڑنے کے لیۓ انتخاب ہوتا ہے وہ دوسرے تمام بچوں کے سامنے اترائے اترائے پھرتے ہیں-
اس کے بعد میلاد والے دن کے خیال سے ان کو رات بھر نیند نہیں آتی ہے اپنی ہی آواز کو مائک پر سننے کے ایکسائٹمنٹ ان کو سونے نہیں دیتی ہے اور علی الصبح جاگ کر نہا دھو کر سفید کپڑے پہن کر وہ خوشبو لگا کر وہ اڑتے ہوئے اسکول پہنچتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار شروع کر دیتے ہیں-
ایسے ہی دو بچے جنید اور آل محمد بھی تھے جن کی عمریں 15سال تھیں دونوں ہی میٹرک کے طالب علم تھے اور سٹی اسکول جہلم میں زیر تعلیم تھے۔ اسکول میں محفل میلاد کے انعقاد میں ان دونوں کا انتخاب بھی نعت پڑھنے والے بچوں میں ہوا تھا جس کے لیے وہ بہت ایکسائیٹڈ تھے- انہوں نے پڑھی جانے والی نعت کو نہ صرف زبانی یاد کیا تھا بلکہ اس کی پریکٹس بھی کر رکھی تھی-..
میلاد کے لیے اسکول انتظامیہ نے کھلی جگہ پر انتظامات کیے تھے۔ جہاں شامیانے لگائے گئے تھے جن کو سہارے کے لیے ایک دیوار سے باندھ دیا گیا تھا اور حصہ لینے والے تمام طالب علموں کو دیوار کے سائے میں بٹھا دیا گیا تھا جن میں جنید اور آل محمد بھی شامل تھے-
اپنی باری کے انتظار میں ہدیہ نعت کو دہراتے ہوئے یہ دونوں معصوم طالب علم اس بات سے بے خبر تھے کہ یہ نعت اس دنیا میں ان کو سنانے کا موقع نہیں ملے گا اور وہ یہ نعت بارگاہ رسالت میں خود ہی پیش ہو کر سنائيں گے-
اچانک چلنے والی ہوا کے سبب کمزور دیوار شامیانے کا بوجھ نہیں سہار سکی اور بچوں کے اوپر آکر گری جس کی وجہ سے بچوں کے سر پر شدید چوٹ آئی اور جنید اور آل محمد نے موقع پر ہی اپنی جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی جب کہ باقی 20 افراد زخمی ہوئے- جن میں سے 5 بچوں اور 2 اساتذہ کو شدید چوٹیں بھی آئیں-
معصوم جنید اور آل محمد کی یہ موت اگرچہ شہادت کے رتبے کے برابر ہے مگر ان کے والدین کے دل کو صبر آنا مشکل ہے جنہوں نے ان بچوں سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں اور جو ان کے بڑھاپے کا سہارا بننے والے تھے-
اس حوالے سے سماجی حلقوں کی جانب سے اس غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف سخت ترین کاروائي کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاہم اسکول کے انتظامیہ کے بااثر ہونے کی وجہ سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے- تاہم سماجی حلقوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ معصوم بچوں کو انصاف دلا کر ہی دم لیں گے –