دنگ کر ڈالنے والا واقعہ
لاہور (ویب ڈیسک) اسلام آباد کی بنیادوں میں بے وفائی کا آسیب ہے۔جب تک اسے ختم نہیں کیا جاتا یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونا‘‘۔ رات کے دوسرے پہر جب ہم مچھلی کھا چکے اور گورکھ پان کا قہوہ پی چکے تو میں نے بشیر چاچا سے پوچھا : جھیل پر بھوت
کا آسیب تو سنا تھا یہ بے وفائی والے آسیب کی کہانی کیا ہے؟نامور کالم نگار آصف محمود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ جب یہ شہر بن رہا تھا تو حکومت نے اعلان کیا کہ اچھا سا نام تجویز کیا جائے اور جس کا نام حکومت کو پسند آ ئے گا اسے اس شہر میں پلاٹ ملے گا اور نقد انعام بھی دیا جائے گا۔ بہت سے لوگوں نے نام بھیجے لیکن پاک پتن شریف کے ایک ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر عبد الرحمن کا بھیجا نام حکومت کو پسند آیا۔ یہ نام اسلام آباد تھا۔ حکومت نے یہ نام تو رکھ لیا لیکن ماسٹر صاحب کے ساتھ بے وفائی کی۔ انہیں نہ پیسے دیے نہ کسی نے پلاٹ دیا۔ماسٹر جی نے خط بھی لکھے اور ایک بار شاید وہ آئے بھی تھے۔لیکن کسی افسر نے ان کی بات نہیں سنی۔ اس شہر کی ابتدا ہی بے وفائی سے ہوئی ہے۔ اسی لیے یہاں کسی کام میں برکت نہیں رہی۔ ماسٹر جی کے پیسے اور ماسٹر جی کا پلاٹ جب تک ان کے حوالے نہیں کیا جاتا اس شہر میں برکت نہیں آ سکتی۔ سالوں بعد آج ملکی حالات دیکھ کر مجھے چاچا بشیر یاد آ رہا ہے اور میں بیٹھا سوچ رہا ہوں کیا یہ ممکن ہے حکومت پاک پتن کے ماسٹر عبدالرحمن صاحب کو تلاش کرے ، وہ زندہ ہیں تو ان کے پاس جائے ، وہ فوت ہو چکے ہیں تو ان کے لواحقین کے پاس جائے ۔ان سے معذرت کرے ۔ ان کا انعام اور ان کا پلاٹ ان کے حوالے کر آئے ۔کیا عجب بے وفائی کا یہ آسیب ختم ہو جائے اور شہر میں برکتیں آ جائیں۔