پھر قدرت اس بگڑے امیر زادے کو کیسے راہ راست پر لے آئی ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار وجاہت مسعود اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔بغداد میں ابوالحسن نام کا ایک رئیس زادہ رہتا تھا۔ باپ کے انتقال کے بعد داد و دہش کی سوجھی۔ ہر شام ظاہر دار بیگ نما دوستوں کی منڈلی جمتی۔ مال مفت ہو تو ’برات عاشقاں بر شاخ آہو‘ چہ روز؟
دولت ختم ہوئی تو مجلس احباب بھی بکھر گئی۔ گھر میں کچھ پونجی باقی تھی، ابوالحسن نے سنبھل کر تجارت کی تو مالی معاملات پھر سے استوار ہو گئے۔ ابوالحسن کو بغداد کے مطلب پرست شہدوں سے تنفر ہو گیا تھا مگر جب شام ہوتی تو صحبت نازک خیالاں کی ہڑک اٹھتی۔ اس کا حل یہ نکالا کہ غروب آفتاب کی گھڑی میں فصیل شہر سے کسی مسافر کو اپنے ہمراہ لاتا۔ طعام میں شریک کرتا۔ ایک روز اتفاق سے تین معزز سوداگر مل گئے۔ یہ سوداگر دراصل خلیفہ ہارون الرشید، وزیر جعفر برمکی اور غلام مسرور تھے جو بھیس بدل کر شہر کے حالات دیکھنے نکلے تھے۔ ابوالحسن کی میزبانی سے لطف اندوز ہوئے۔ بے تکلف گفتگو میں ابوالحسن نے برسبیل تذکرہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر ایک روز کے لئے حکومت مل جائے تو شہر کے بدمعاشوں کو ٹھکانے لگا دے۔ بادشاہ کو خوش طبعی سوجھی۔ قبلہ ابوالحسن کو سفوف بے ہوشی کی مدد سے محل سرا میں پہنچا کر سب کنیزوں اور خدام کو ہدایت کر دی کہ مہمان کو ایک روز کے لئے بادشاہ سلامت تصور کیا جائے، تمام احکامات کی تعمیل ہو۔ ابوالحسن نے ایک روز کے لئے شہریاری کے مزے لوٹے۔ رات گئے پھر سے اپنے ٹھکانے پر پہنچا دیے گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو اطلس و کمخواب خیال و خواب ہو چکے تھے۔ شجرۃ البدر اور نورالصباح نامی کنیزوں کی کوئی خبر نہیں تھی۔ بوڑھی ماں البتہ حسب سابق موجود تھی۔ ابوالحسن خود کو خلیفہ تسلیم کر چکے تھے۔ گزشتہ روز کی کارگزاری
کے شواہد بھی موجود تھے۔ ایسے غضب میں آئے کہ کوتوال نے انہیں پاگل قرار دے کر بندی خانہ بھیج دیا۔ یہ کہانی دلچسپ مگر قدرے طویل ہے جس میں ابوالحسن پر یہ واردات ایک بار نہیں، دو مرتبہ گزری۔ کالم کی تنگنائے میں الف لیلیٰ کی وسعت نہیں سما سکتی۔ اردو اور انگریزی میں بہت اچھے تراجم موجود ہیں۔ وقت مہلت اور ذوق اجازت دے تو خود لطف اٹھائیے گا۔ درویش کو البتہ اس سوال کا جواب نہیں مل سکا کہ ابوالحسن کا اختلال حواس خلیفہ ہارون کی خوش فعلی کا نتیجہ تھا یا وہ محترمہ زینت القلوب کے حسن جہاں سوز کا نخچیر قرار پایا یا اس کی اپنی افتاد میں خرابی کی کوئی صورت تھی؟ آج ہم الف لیلیٰ کی دنیا سے بہت آگے نکل آئے ہیں لیکن بخشیدہ اقتدار کی حرکیات وہی ہیں۔ اختیار کی بنیاد میں بھونچال رکھا ہو تو فصیل شہر مٹی کی منڈیر میں بدل جاتی ہے۔ زلف ایاز کے خم کی مستقل تابداری کا ایک ہی راستہ ہے، جمہور کی حکمرانی، دستور کی بلافصل بالادستی، شفاف فیصلہ سازی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم۔