کوہ نور:
لاہور (ویب ڈیسک) بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔۔۔یہ واقعہ 29 مارچ سنہ 1849 کا ہے۔ دس سالہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کو قلعے کے وسط میں واقع شیش محل لایا گیا۔ اس لڑکے کے والد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا ایک عشرے قبل انتقال ہوچکا تھا۔ ان کی والدہ رانی جندن کور
کو شہر کے باہر کسی دوسرے محل میں بھیج دیا گیا تھا۔دلیپ سنگھ کے گرد چاروں طرف سرخ اوور کوٹ اور ہیٹ میں ملبوس انگریزوں نے دائرہ بنا رکھا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک عوامی تقریب میں انھوں نے اپنے دربار کے باقی ماندہ سرداروں کے سامنے اس دستاویز پر دستخط کر دیے جس کا برطانوی حکومت برسوں سے انتظار کر رہی تھی۔اس کے تھوڑی ہی دیر بعد لاہور کے قلعے سے سکھوں کا خالصہ پرچم اتارا گیا اور اس کی جگہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا پٹیوں والا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی نہ صرف ایسٹ انڈیا کمپنی کا سکھوں کی بڑی سلطنت پر تسلط قائم ہو گیا بلکہ دنیا کا سب سے مشہور ہیرا کوہ نور بھی ان کے ہاتھ آ گیا۔کوہ نور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شاید ترکوں نے اسے جنوبی ہندوستان کے کسی مندر میں ایک بت کی آنکھ سے نکالا تھا۔ کتاب ‘کوہ نور دی سٹوری آف دی ورلڈز موسٹ ان فیمس ڈائمنڈ’ کے مصنف ولیم ڈیلرمپل کا کہنا ہے ‘کوہ نور کا پہلا سرکاری ذکر سنہ 1750 میں نادر شاہ کے ہندوستان پر ہلے کے ذیل میں فارسی مؤرخ محمد مروی نے کیا ہے۔ مروی لکھتے ہیں کہ انھوں نے کوہ نور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔وہ اس وقت تخت طاؤس کے بالائی حصے میں جڑا تھا جسے نادرشاہ دہلی سے لوٹ کر ایران لے گیا تھا۔ کوہ نور مرغی کے انڈے کے برابر تھا اور کہا جاتا تھا کہ اسے فروخت کر کے ساری دنیا کے لوگوں کو
ڈھائی دن تک کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔تخت طاؤس کو بنانے میں تاج محل کے مقابلے میں دوگنا رقم لگی تھی۔ بعد میں کوہ نور کو تخت سے نکال لیا گیا تاکہ نادر شاہ اسے اپنے بازو پر باندھ سکیں۔ولیم ڈیلرمپل اور انیتا آنند نے کوہ نور کی تاریخ کو جاننے کے لیے بہت محنت کی ہے۔ تھیو میٹکاف لکھتے ہیں کہ دربار کی ایک رقاصہ نور بائی نے نادرشاہ کو خبر دی کہ محمد شاہ نے کوہ نور کو اپنی پگڑی میں چھپا رکھا ہے۔ یہ سن کر نادر شاہ نے محمد شاہ سے کہا کہ آئیے دوستی کی خاطر آپس میں اپنی پگڑیوں کا تبادلہ کر لیں۔اس طرح کوہ نور نادر شاہ کے ہاتھ آیا۔ جب انھوں نے پہلی بار کوہ نور کو دیکھا تو وہ دیکھتے رہ گئے۔ انھوں نے اس کا نام کوہ نور یعنی روشنی کا پہاڑ رکھا۔’کوہ نور نادر شاہ کے پاس بھی زیادہ دنوں تک نہ رہ سکا۔ ان کے قتل کے بعد یہ ہیرا ان کے افغان محافظ احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ آیا اور سنہ 1813 میں کئی ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس پہنچا۔ ۔مہاراجہ رنجیت سنگھ اسے دسہرہ، دیوالی اور بڑے تہواروں کے موقع پر اپنے بازو پر باندھتے تھے۔ جب کبھی کوئی انگریز افسر ان کے دربار میں آتا تھا تو اسے یہ ہیرا خاص طور پر دکھایا جاتا تھا۔ جب بھی وہ ملتان، پشاور یا دوسرے شہروں کے دوروں پر جاتے کوہ نور ان کے ساتھ ہوتا۔’رنجیت سنگھ کا 1839 میں انتقال ہوگیا۔ سنہ 1843 میں اقتدار کی سخت جدوجہد
کے بعد پانچ سالہ دلیپ سنگھ کو پنجاب کا بادشاہ بنایا گیا۔ لیکن دوسری اینگلو سکھ لڑائی میں انگریزوں کی فتح کے بعد ان کی سلطنت اور کوہ نور دونوں پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا۔ دلیپ سنگھ کو اپنی والدہ سے علیحدہ کردیا گیا اور انھیں ایک انگریز جوڑے کے ساتھ رہنے کے لیے فتح گڑھ قلعہ بھیج دیا گیا۔لارڈ ڈلہوزی کوہ نور لینے بذات خود لاہور آئے۔ ہیرے کو وہاں کے توشہ خانے سے نکالا گیا اور ڈلہوزی کے ہاتھوں پر رکھا گیا۔ اس وقت اس کا وزن 190.3 قیراط تھا۔ لارڈ ڈلہوزی نے کوہ نور کو جہاز ‘میڈیا’ کے ذریعہ ملکہ وکٹوریہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ جہاز کو راستے میں بہت سی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی دوران فتح گڑھ قلعہ میں مقیم مہاراجہ دلیپ سنگھ نے ملکہ وکٹوریہ سے ملنے کے لیے لندن جانے کی خواہش ظاہر کی۔ رانی بھی اس پر راضی ہوگئیں۔ اسی جگہ پر دلیپ سنگھ نے ملکہ وکٹوریہ کو کوہ نور ہیرا پیش کیا۔ انیتا آنند کا کہنا ہے کہ ‘ملکہ وکٹوریہ کو ہمیشہ یہ بات بری لگی کہ ان کی حکومت نے ایک بچے کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔’وہ دلیپ سنگھ کو دل سے چاہتی تھیں، لہٰذا ان کے ساتھ روا سلوک پر وہ ناراض تھیں۔ اگرچہ کوہ نور دو سال قبل ہی ان کے پاس پہنچ چکا تھا لیکن انھوں نے ابھی تک اسے عوامی طور پر نہیں پہنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر دلیپ نے انھیں ایسا کرتے دیکھا تو وہ ان کے بارے میں کیا سوچے گا۔’اس زمانے
میں فرانسز زیور وینٹرہالٹر ایک مشہور پینٹر ہوا کرتا تھا۔ ملکہ نے ان سے دلیپ سنگھ کی تصویر بنانے کے لیے کہا جو وہ اپنے محل میں لگانا چاہتی تھیں۔ جب دلیپ سنگھ بکنگھم پیلس کے سفید ڈرائنگ روم میں بیٹھے سٹیج پر اپنا پورٹریٹ بنوا رہے تھے تو ملکہ نے ایک سپاہی کو بلایا اور اس سے ایک ڈبہ لانے کو کہا جس میں کوہ نور رکھا ہوا تھا۔انھوں نے دلیپ سنگھ سے کہا کہ میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں۔ دلیپ سنگھ نے جیسے ہی اسے دیکھا انھوں نے کوہ نور کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ کھڑکی کے پاس لے جا کر اسے روشنی میں دیکھا۔ اس وقت تک اس کوہ نور کی شکل بدل گئی تھی اور اسے کاٹ دیا گیا تھا۔اب یہ وہ کوہ نور نہیں تھا جو دلیپ سنگھ پنجاب کے مہاراجہ کے طور پر پہنا کرتے تھے۔ تھوڑی دیر کوہ نور دیکھنے کے بعد دلیپ سنگھ نے ملکہ سے کہا کہ ‘یور میجسٹی میرے لیے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ یہ ہیرا میں آپ کو بطور تحفہ دوں۔’ ملکہ وکٹوریہ نے ہیرا ان سے لیا اور اپنی موت تک اسے مسلسل پہنتی رہیں۔ملکہ وکٹوریہ کے بعد ان کے بیٹے کنگ ایڈورڈ ہشتم نے کوہ نور کو اپنے تاج میں نہیں لگایا۔ لیکن ان کی اہلیہ ملکہ الیگزینڈرا نے اپنے تاج میں اسے جگہ دی۔ کوہ نور کے ساتھ ایک توہم پرستی پھیل گئی کہ جو بھی اسے چھوئے گا وہ برباد ہو جائے گا۔ لیکن خواتین کو اسے پہننے میں کوئی دشواری نہیں تھی۔بعد میں مستقبل کے بادشاہ جارج پنجم کی اہلیہ شہزادی میری نے بھی اسے اپنے تاج میں لگوایا تھا۔ لیکن اس کے بعد ملکہ الزبتھ دوم نے کوہ نور کو اپنے تاج میں جگہ نہیں دی۔ آج کل دنیا کا سب سے مشہور ہیرا ٹاور آف لندن کے جیول ہاؤس میں رکھا ہے۔(بشکریہ : بی بی سی )