مگر پھر کیا حیران کن واقعہ پیش آیا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار مظہر عباس اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک بار بھٹو صاحب کو قید سے فرار کروانے کی بھی سازش ہوئی جس کا علم جب ان کو ہوا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ بعد میں یہ واقعہ لیبیا سازش کیس کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ اس میں لیبیا کے
کرنل قذافی اور فلسطین کے رہنما یاسر عرفات کا نام بھی آیا تھا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر آفتاب گل کے بقول جو ایک زمانے میں خود ایک جیالے تھے ’’ سارا پلان تیار تھا جب بھٹو صاحب سے کہا کہ آپ کو تیار رہنا ہے تو انہوں نے ہر قسم کے ایڈونچر سے منع کیا اور کہا، میں تاریخ کے ہاتھوں ختم ہونا نہیں چاہتا ‘‘۔بھٹو کے لئے بھی ایک NRO لینے کی کوشش ہوئی جس کا ذکر ایک بار سابق نگران وزیر اعظم غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم نے مجھ سے ایک انٹرویو میں کیا، ’’ میں جنرل عارف حسن کی موجودگی میں ایک بار جنرل ضیاء سے ملا اور درخواست کی کہ اس پورے خاندان کو چند شرائط کے ساتھ باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے یقین دہانی بھی کرائی مگر جب بھٹو کو پتا چلا تو ناراضی کا اظہار کیا ۔4اپریل 1979ءکو انہیں سزا دے دی گئی۔ ‘‘پی پی پی کو ختم کرنے کیلئے کئی بار توڑا گیا ،پہلے ضیاء نے1984ءمیں ایک ریفرنڈم کے ذریعہ اپنا دور اقتدار بڑھایا، پھر غیر جماعتی انتخابات کے ذریعہ قوم کو لسانی،برادری اور فرقہ واریت میں تقسیم کر دیا اور اس سب کے منفی اثرات سیاست کا حصہ بن گئے ،پنجاب کے کاروباری خاندانوں کو دباؤ اور لالچ کے ذریعہ سیاست میں لایا گیا مگر پارٹی ختم نہ ہوئی۔آخر کار پارٹی نے خود اس کا بیڑہ اٹھا لیا۔ مزاحمت سے مفاہمت اور آخر میں مصلحت کی بدولت آج یہ جماعت سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ لاہور جہاں سے پی پی پی کا آغاز 30نومبر 1967کو ہوا تھا ،وہاں اب پارٹی کی پہچان صرف عالی شان بلاول ہاؤس رہ گیا ہے، ورنہ تو امیدوار نہیں ملتے۔