تمغے کے ساتھ کتنی رقم یا اراضی ملتی ہے
لاہور (ویب ڈیسک) بی بی سی کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔پاکستان میں نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں میں سے نو کا تعلق پاکستان کی بری فوج جبکہ ایک کا پاکستانی فضائیہ سے ہے۔وزارت دفاع کے حکم پر ‘پاکستان مِنٹ’ (وہ جگہ جہاں سِکّے بنائے جاتے ہیں) نشان حیدر تیار کرتی ہے۔
اسے دشمن سے چھینے گئے ہتھیاروں کو پگھلا کر بنایا جاتا ہے جس میں 88 فیصد تانبا، 10 فیصد سونا اور 2 فیصد زنک (جست) شامل کیا جاتا ہے۔عوامی سطح پر اس قسم کی کوئی معلومات دستیاب نہیں کہ نشان حیدر پانے والوں کو مالی طور پر کیا فوائد دیے گئے تاہم ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق حمید کے مطابق نشان حیدر کا اعزاز پانے والوں کے اہل خانہ کو پیشکش کی جاتی ہے کہ وہ چاہیں تو نقدی لے لیں یا زرعی اراضی۔نشان حیدر کا اعزاز بلالحاظِ عہدہ پاکستان کی افواج کے کسی بھی فرد کو دیا جا سکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یہ اعزاز صرف جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو دیا جائے، تاہم اب تک پاکستان میں یہ اعزاز صرف مادرِ وطن کے لیے اپنی زندگی قربان کرنے والوں کے حصے میں ہی آیا ہے۔نشانِ حیدر حاصل کرنے والے سب سے پہلے فوجی، کیپٹن راجہ سرور تھے جنھوں نے 27 جولائی 1948 کو کشمیر کے محاذ پر قربانی دی تھی اور ان کا اعزاز 27 اکتوبر 1959 کو ان کی اہلیہ نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے ہاتھ سے وصول پایا تھا۔میجر محمد اکرم نشان حیدر حاصل کرنے والی وہ واحد شخصیت ہیں جو بنگلہ دیش میں دفن ہیں جبکہ باقی قبریں ملک کے مختلف علاقوں اور کشمیر میں واقع ہیں۔پاکستان کی عسکری تاریخ کو دیکھا جائے تو سب سے زیادہ یعنی پانچ نشان حیدر 1971 کی اس وار کے بعد دیے گئے جس کا نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا تھا۔1971 کی وار میں بہادری پر پاکستان آرمی کے چار نشان حیدر پانے والوں میں سے صرف ایک میجر اکرم کو مشرقی پاکستان کے دفاع کے دوران زندگی قربان کرنے پر یہ اعزاز ملا جبکہ دیگر تین فوجیوں نے پنجاب کے میدانوں میں لڑتے ہوئے قربانی دی تھی ۔ پائلٹ آفیسر راشد منہاس 1971 کی لڑائی کا پانچواں نشانِ حیدر حاصل کرنے والے فوجی تھے۔ وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے سب سے کم عمر اور پاکستانی فضائیہ کے وہ واحد افسر ہیں جنھیں بے مثال شجاعت پر نشان حیدر دیا گیا۔