ایک ناقابل یقین اور سچا واقعہ عجیب داستان
نامور کالم نگار تنویر ظہور اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔راولپنڈی کے علاقے واہ کینٹ کی ڈاکٹر سیدہ رفعت سلطانہ کا تعلق ایک کھاتے پیتے پڑھے لکھے گھرانے سے تھا۔ بچپن کے دور کو ہنستے کھیلتے گزارنے کے بعد ذہین اور
خوبصورت رفعت سلطانہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے لندن روانہ ہو گئیں۔ وہاں سے جب واپسآئیں تو ڈاکٹری کی ڈگری بھی ساتھ لے کر آئیں۔ اپنے وطن کی خدمت کے جذبے سے سرشار رفعت سلطانہ نے اپنی پریکٹس کا آغاز اپنے علاقے ہی میں کردیا، جہاں پر ایک ساتھی ڈاکٹر کی محبت میں دل ہار بیٹھیں۔ مگر کاتب تقدیر نے اس کی زندگی میں کچھ اور لکھ رکھا تھا۔ شادی کے چند ہی دنوں بعد اس پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ
اس کا جیون ساتھی اس سے بے وفائی کر رہا ہے اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی ہے۔ ظالم شوہر نے اس کے ساتھ دھوکے سے ڈاکٹر رفعت سلطانہ کی ساری جائیدار بھی اپنے نام کروا کر اس کو گھر سے نکال دیا۔ پے در پے ملنے والے صدموں نے ڈاکٹر رفعت سلطانہ کے حساس دل و دماغ کو بری طرح متاثر کیا اور وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی
واہ کینٹ کی گلیوں میں بھٹکتے ہوئے اسے لوگوں نے کئی بار دیکھا۔ سالوں تک اس نے اپنا اوڑھنا بچھونا انہی گلیوں کو بنا لیا، جہاں پر ضرورت پڑنے پر وہ گزرتے لوگوں سے اللہ کے نام پر ایک روپیہ مانگتی۔ اگر کوئی پانچ روپے دے دیتا تو اس کو روک کر چار وپے واپس کر دیتی۔ وہ 10 دسمبر 2016ء میں زندگی کی بازی ہار گئی۔ اپنوں کے ظلم کاشکار ڈاکٹر رفعت سلطانہ کی موت کی خبر جب شہر میں
پھیلی تو پورا شہر اس کا رشتے دار بن گیا اور اس کے سوگ میں سکول، دکانیں سب بند ہو گئیں۔ لوگوں نے اسے ایک روپے والی مائی اور مائی مجذوبہ کا نام دیا اور اس کے جنازے میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سوگواروں نے اس کی قبر پر کتبے میں اس کا نام ’’ایک روپے والی مائی‘‘ ہی کندہ کرایا۔ زندگی کے بیس سال تک وہ اسی شہر کے لوگوں میں صرف ایک روپیہ مانگتی رہی۔