چالاک اور ذہین بیوی
اللہ اکبر ۔۔۔۔امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کے مبارک دور کی بات ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی سے بڑا تنگ تھا اور اسے ہر حالت میں طلا ق دینا چاہتا تھا‘ ایک دن اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے‘ اس نے بیوی کو مخاطب کیا اور کہنے لگا: سنو ! اگر تو اوپر چڑھی تو تجھے طلا ق‘ نیچے اتری تو طلاق اور اپنی جگہ کھڑی رہی تو پھر بھی طلا ق ۔
اس عورت نے اپنے خاوند کی طرف دیکھا‘ لمحہ بھر کیلئے رکی‘ ذرا سوچا اور پھر اس کے خاوند نے دیکھا کہ اس نے سیڑھی سے چھلانگ لگا دی اور خاوند کی حسرتوں پر پانی پھر گیا‘ اپنی بیوی سے مخاطب ہوا‘ میر ے ماں باپ تجھ پر قربان ! تو کتنی بڑی فقیہہ ہے۔
امام مالک رحمتہ اللہ تعالیٰ وفات پا جائیں تو ممکن ہے اہل مدینہ فتویٰ کیلئے تیرے ہی پاس آئیں۔ایک مرتبہ جگر مراد آبادی بیٹھے ہوئے تھے کہ دل میں خیال آیا کہ شر ا ب نہ پیؤں گا تو کیا ہو گا؟ اگر میں اللہ کو ناراض کر بیٹھا اور نفس کو خوش کر لیا تو کیا فائدہ ہو گا
‘ چنانچہ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے پینے سے توبہ کر لی‘ چونکہ بہت عرصہ سے پی رہا تھا اس لئے بیمار ہو گیا۔ ہسپتال گئے‘ ڈاکٹروں نے کہا کہ ایک دم چھوڑنا تو ٹھیک نہیں‘تھوڑی سی پی لیں وگرنہ موت آ جائے گی‘ پوچھنے
لگے تھوڑی سی پی لوں تو زندگی کتنی لمبی ہو جائے گی؟انہوں نے کہا کہ دس پندرہ سال‘ کہنے لگے دس پندرہ سال کے بعد بھی تو مرنا ہے بہتر ہے کہ ابھی مر جاؤں تاکہ مجھے توبہ کا ثواب مل جائے‘ چنانچہ پینے سے انکار کر دیا‘ اسی دوران ایک مرتبہ عبدالرب نشتر سے ملنے گئے‘ماشاء اللہ وہ اس وقت وزیر تھے ان کا تو بڑا پروٹوکول تھا
یہ جب ان سے ملنے گئے تو چوکیدار نے سمجھا کہ کوئی مانگنے والا فریاد لے کر آیا ہو گا‘ چنانچہ اس نے کہا جاؤ میاں! وہ مصروف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھا اپنے پاس سے کاغذ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نکالا اور اس پر ایک مصرعہ لکھ کر عبدالرب نشتر کو بھیجا کیونکہ وہ بھی صاحب ذوق تھے عجیب مصرعہ لکھا۔نشتر کو ملنے آیا ہوں میرا جگر تو دیکھ۔