ایک دن حضرت ابو بکر صدیق ؓ کھانا کھا رہے تھے ۔
ایک دن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کھانا کھا رہے تھے۔ آپ کا دل کسی میٹھی چیز کھانے کو چاہا۔ آپ نے اپنی زوجہ سے پوچھا، کیا کوئی میٹھی چیز ہے؟ انہوں نے جواب دیا .بیت المال سے جو کچھ آتا ہے اس میں میٹھی کوئی چیز نہیں ہوتی۔چند دن بعد آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے دیکھا کہ دسترخوان پر کھانے کے ساتھ حلوہ بھی موجود ہے۔
آپ نے اپنی زوجہ صاحبہ سے پوچھا آج یہ حلوہ کیسے بن گیا؟آپ کی زوجہ محترمہ نے فرمایا میں نے محسوس کیا کہ آپ کو میٹھی چیز کی خواھش ھے تو میں نے یوں کیا کہ جتنا آٹا روزانہ آتا تھا اس میں سے مٹھی بھر آٹا الگ رکھتی تھی۔ آج اتنا آٹا جمع ھو گیا کہ اس کے بدلے میں نے بازار سے کجھور کا شیرہ منگوایا اور اس طرح یہ حلوہ تیار کیا۔آپ نے حلوہ تناول فرمایا۔ کھانے کے بعد آپ سیدھے بیت المال کے مہتمم کے پاس پہنچے اور فرمایا۔ ھمارے ھاں راشن میں جس قدر آٹا جاتا ھے آج سے اس میں سے ایک مٹھی کم کردینا۔
کیونکہ ھفتہ بھر کے تجربے نے بتایا ھے کہ ھمارا گزارہ مٹھی بھر کم آٹے میں بھی ھو جاتا ھے۔جن خوش نصیبوں نے اىمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائى، چاہے یہ صحبت اىک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہم عادل، متقی ،پرہیز گار، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانےکے ساتھ ساتھ بے شمارفضائل و کمالات رکھتے ہیں
لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جوایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے پوچھا: رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعداس اُمّت کے لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔اے عاشقانِ رسول!
آئیے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق چند ایسے فضائل و کمالات پڑھئے جن میں آپ رضیَ اللہُ عنہ لاثانی و بے مثال ہیں۔ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی نبی کے ساتھی اور ثَانِیَ اثْنَیْنِ دو میں
سے دوسرافرمایا،یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔نام صِدِّیق: آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا،آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا۔رفیقِ ہجرت: جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے رفیقِ ہجرت تھے۔صرف ابو بکر کا دروازہ کُھلا رہے گا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا: مسجد نبوی میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین