استاد امانت علی خان کو کب اور کیسے محسوس ہوا کہ ان کے سننے والوں میں ’جنات‘ بھی ہیں ؟ایک ناقابل یقین واقعہ
کلاسیکی موسیقی کی تاریخ میں دوسرا کوئی گائیک ایسا نہیں گزرا جسے اس قدر چاہا گیا ہو۔ استاد امانت علی خان بنیادی طور پر کلاسیکی گویے تھے مگر جب ہلکی پھلکی موسیقی کی جانب آئے تو انھیں پاپ سٹارز سے بھی زیادہ شہرت ملی۔
امانت علی خان کو اپنی زندگی میں ملنے والی شہرت اور موت دونوں اساطیری روپ دھار گئی تھیں۔ ابن انشا کی غزل ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہرمیں جی کو لگانا کیا‘ گانے کے بعد وہ اس دنیا سے چل بسے تو ان کی موت لوک داستان کا روپ اختیار کر گئی۔اُن کے چاہنے والے یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ پریاں اور اپسرائیں اُن پر عاشق ہو جایا کرتی تھیں۔ استادامانت کی حسین زندگی میں ایسے لمحات بھی آئے جب انھیں محسوس ہوا کہ ان کے سامعین جنات اور پریاں ہیں۔استاد امانت نے اپنے متعلق ایک پُراسرار واقعے کا حال ایک ریڈیو انٹرویو میں کچھ یوں سُنایا تھا کہ انڈین پنجاب کے شہر پٹیالہ میں وہ راج محل کے قریب شیرانولہ گیٹ میں واقع ایک حویلی میں رہائش پذیر تھے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب وہ آٹھ یا نو برس کے ہوں گے۔وہ بتاتے تھے کہ رات کا پچھلا پہر تھا اور وہ راگ مالکونس کا ریاض کرتے کرتے تھک کر سستانے لگے۔ ان کی اُنگلیاں تان پورے پر تھیں اور آنکھیں بند تھیں کہ اچانک ان کے کان میں اُس گانے کی ایک آواز آئی جو وہ پہلے سے گا رہے تھے۔میں یہ سمجھا چھوٹا بھائی فتح علی میرے ساتھ ریاض میں یہ سوچتے ہوئے شامل ہو گیا ہے کہ بڑا بھائی گا رہا ہے تو میں بھی اس کا ساتھ دوں۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ فتح علی آج بہت عمدہ گا رہا ہے۔ میں آنکھیں بند کر کے راگ کے سُروں کو چھیڑ رہا تھا کہ اچانک وہ غائبی
آواز گندھار (گا) سے نیچے تان لے کر اُتری۔ وہ تان اس قدر تیز طراز اور خوبصورت تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ ’مجھے یوں لگا جیسے مجھ پر جادو چل گیا ہو۔ واہ، واہ، واہ کر کے میں اٹھا تو دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں چونکہ بچہ تھا اس لیے بہت ڈر گیا، میں وہاں سے چیختے ہوئے بھاگا اور ابا کے کمر ے میں آیا اور انھیں جلدی سے یہ ماجرا سُنایا۔‘وہ مجھے لے کر وہیں ریاض والے کمرے میں واپس پہنچے اور مجھے تسلی دی کہ میں اسی طرح گاتا رہوں، مجھے کچھ نہیں ہو گا،میں بہت ڈرا ہوا تھا مگر والد صاحب کی موجودگی میں، میں نے اسی طرح مالکونس راگ دوبارہ گانا شروع کیا لیکن وہ آواز دوبارہ نہ آئی اور پھر ساری زندگی نہ آئی۔‘استاد امانت کے چھوٹے بھائی استاد حامد علی خان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے وہ ہمارے دادا استاد علی بخش جرنیل خان کی روح ہو جنھیں وائسرائے ہند سر لارڈ جیمز بروس نے جرنیل خان اور ان کے جوڑی دار استاد فتح علی خان کو کرنیل خان کا لقب دیا تھا۔پٹیالہ گھرانے کے مشہور گوئیے علی بخش جنھیں وائسرائے ہند لارڈ ایلگن نے ’جرنیل خان‘ کا خطاب دیا تھاانھوں نے کہا کہ ہمارا گھرانہ پیٹالہ ہے اور ہمارے خاندان کے جدِ امجد میرے پردادا استاد میاں کلو خان تھے، جنھوں نے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے درباری گوئیے میر قطب بخش تان رس خان سے استفادہ کیا تھا۔استاد حامد نے کہا کہ یہ روایات موجود ہیں کہ
ہمارے بزرگوں سمیت دوسرے بڑے گانے والوں کو بھی جنات اور پریوں نے سُنا اور ان پر عاشق ہو گئیں۔انھوں نے کہا کہ ’استاد امانت جیسا وجیہہ اور خوبصورت مرد میں نے نہیں دیکھا۔ میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ وہ میرے بھائی تھے، اُن کا گانا، پہناوا، شکل و شباہت اور عادات راجہ مہاراجاؤں کی طرح تھیں۔اس سوال پر استاد حامد علی خان ہنس دیے کہ کیا بہت سی نامور گلوکارائیں استاد امانت علی خان پر عاشق تھیں اور ایک بہت نامور فلمی گلوکارہ اور امانت صاحب کا رومان بہت مشہور ہوا تھا؟ انھوں نے کہا کہ اگر نام لیں گے تو پردہ نشینوں کے نام آئیں گے، اس بات کو یہیں رہنے دیں۔بڑے بھائی صاحب امانت خان ہمارے خاندان کا چہرہ مہرہ تھے اور اُن کے خیالات بھی بہت بلند تھے۔ وہ زیادہ پڑھے نہیں تھے لیکن انھوں نے اپنے ماحول اور دوستوں سے بہت سیکھا تھا۔ اُن کے دوست احباب کی فہرست طویل تھے جس میں گوئیے، عالم، فاضل، شاعر، ادیب، دانشور، سیاستدان اور حکمران شامل تھے۔ استاد امانت علی خان خوش مزاج انسان تھے بات کرتے تو لطیفہ بن جایا کرتا تھا۔‘استاد حامد نے ہنستے ہوئے کہا کہ گانا اور ہنسنا کھیلنا ہمیں ورثے میں ملاہے۔استاد امانت علی خان محفلیں سجانے والے انسان تھے، دوستوں کے ساتھ بیٹھے گھنٹوں لطیفے سُنتے اور سُناتے تھے، وہ جس محفل میں بھی ہوتے اس کی جان ہوتے تھے۔‘استاد امانت اور استاد فتح علی کا ایک مشہور واقعہ ہے۔استاد فتح علی خان بچپن میں گر پڑے تھے جس کی وجہ سے ان کے بازو
کی ہڈی ٹیڑھی ہو گئی تھی، چونکہ استاد فتح علی بڑے نفیس انسان تھے وہ پورے بازووں والی قمیض پہنا کرتے تھے تاکہ ان کا ٹیڑھا بازو دکھائی نہ دے۔ ایک مرتبہ استاد امانت اور استاد فتح کی بحث ہو گئی، جب استاد فتح نے بہت باتیں کر لیں تو استاد امانت نے صرف اتنا کہا کہ ’تم جو اتنی باتیں کر رہے ہو، تم مجھے آدھی آستین کا کرتا پہن کر دکھا دو۔‘ بس پھر کیا تھا استاد فتح علی سمیت سب گھر والوں نے استاد امانت کے اس جملے کو انجوائے کیا اور یہ جملہ ایک تاریخی لطیفہ بن گیا۔پٹیالہ گھرانے کی روایت کے مطابق استاد امانت نے چھوٹے بھائی استاد فتح علی خان کے ساتھ جوڑی کی شکل میں گائیکی کی۔وہ انڈین پنجاب کے مشہور شہر پٹیالہ میں سنہ 1922 میں پیدا ہوئے تھے اور پھر قیام پاکستان کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ لاہور منتقل ہو گئے۔استاد حامد علی خان بتاتے ہیں کہ استاد امانت علی خان اور استاد فتح علی خان مہاراجہ پٹیالہ کے محل میں باقاعدگی سے اپنے فن کا مظاہر ہ کرنے لگے تھے، انھیں دربار سے ہر ماہ وظیفے کے ساتھ دیگر مراعات بھی مل رہی تھیں لیکن قیام پاکستان کے وقت یہ سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔لاہور میں ہمارا خاندان بازار حسن سے ملحقہ شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد کے پہلو میں آباد ہوا۔ استاد امانت فتح علی کی جوڑی کو سنہ 1969 میں پرائڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔ اس جوڑی کے بعد استاد حامد علی خان، اسد امانت علی خان اور
شفقت امانت علی خان کو بھی یہ اعزاز دیا گیا۔ یوں پٹیالہ گھرانے کو پانچ پرائڈ آف آرٹسٹ ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔‘جب انڈیا میں مشہور ہوا کہ پٹیالہ گھرانہ پاکستان چھوڑ کر انڈیا آ رہا ہےاستاد حامد علی خان نے بتایا کہ ہمارے بزرگ پٹیالہ میں رہتے تھے لیکن جب پاکستان بن گیا تو یہ ہمارا وطن ہوا۔ ’استاد امانت علی خان، فتح علی خان کو بھی کہا گیا کہ انڈیا آ جائیں اور اپنی ساری جاگیریں واپس لے لیں لیکن وہ نہیں گئے اور دونوں اسی مٹی میں دفن ہوئے۔‘’مجھے اور اسد امانت علی کو اندرا گاندھی اور واجپائی نے علیحدہ علیحدہ محافل میں سُنا۔ واجپائی نے ہم دونوں کو پیشکش کی کہ ہم پٹیالہ واپس آ جائیں تو ہمیں ہماری ساری جاگیریں واپس دینے کے ساتھ اور بھی مراعات دی جائیں گی۔ یہ خبر انڈیا میں شائع کر دی گئی تو ہر طرف شور مچ گیا۔۔۔ اس پر استاد ناظم خاں سارنگی نواز جو ہمارے ساتھ انڈیا کے دورے پر تھے انھوں نے بڑے بھائی استاد فتح علی کو ٹیلی گرام دے دی کہ انڈیا میں شور مچ گیا ہے کہ ’پیٹالہ گھرانہ پاکستان چھوڑ کر دوبارہ انڈیا واپس آ رہا ہے۔‘استاد فتح علی نے یہ سُنا تو ہم پر بڑے سیخ پا ہوئے، تب ہم نے انھیں ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے بتایا آپ کی طرح ہمیں بھی پیشکش ہوئی ہے لیکن ہم واپس پاکستان آ رہے ہیں۔ استاد حامد علی خان نے کہا کہ میرا جوڑی دار اسد امانت علی خان دنیا سے چلا گیا ہے، ہم نے بھی جانا ہے
لیکن ہمارے تربت بھی اسی دھرتی میں بنے گی جس کا نام پاکستان ہے اور یہ نام رگوں میں جاری خون کے ساتھ رچا بسا ہوا ہے۔استاد امانت علی خان کے دو بیٹے اسد امانت (دائیں) اور شفقت امانت (بائیں)۔ والد اور دونوں بیٹوں کو حکومت نے پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔۔۔راگ:استاد امانت علی ’ولمپت‘ کرتے ہوئے راگ کا آغاز اور پھیلاؤ بتاتے جبکہ استاد فتح علی ’دھرت‘ کے ماہر تھے جس میں گویا چوکے چھکے لگاتا ہے۔پٹیالہ گھرانے کے جواں سال گائیک نایاب حامد علی خان نے استاد امانت اور استاد فتح کی جوڑی اور ان کی گائیکی کی تکنیک سے متعلق بتایا کہ استاد امانت راگ کا آغاز اور تعارف کراتے ہوئے ولمپت کرتے تھے۔ ولمپت راگ کے تعارف اور پھیلاؤ تک کی مختلف منازل کا نام ہے، جسے گویا مختلف الاپوں اور ارادوں سے ظاہر کرتا ہے جبکہ استاد فتح علی خان دھرت کیا کرتے تھے۔نایاب علی خان نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ استاد امانت کریز پر کھڑے ہو کر تیز باؤلنگ کا سامنا کیا کرتے تھے جبکہ استاد فتح علی خان چوکے چھکے لگایا کرتے تھے۔ یوں یہ ہمارے دونوں بزرگ سنچریاں در سنچریاں بناتے رہے۔پٹیالہ گھرانے کا یہ اعزاز ہے کہ برصغیر کے ممتاز اور بڑے گانے والوں کا تعلق اس خاندان سے رہا جیسا کہ استاد بڑے غلام علی خان، استاد برکت علی خان، استاد مبارک علی خان، ملکہ ترنم نور جہاں، محمد رفیع، فریدہ خانم، غلام علی، استاد فتح علی خان، استاد حامد علی خان، اسد مانت علی خان اور شفقت امانت علی خان سمیت دیگر شامل رہے ہیں۔
استاد کی گائی مشہور ٹھمریاں، غزلیں اور ملی ترانے:کلاسیکی موسیقی سے وابستہ فنکار ایک مشکل فن سے وابستہ ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کو راگ راگنیوں، تال، ٹھیکوں اور دیگر باریکیوں کی سمجھ نہیں آتی اس لیے وہ کلاسیکی موسیقی سے وابستہ فنکاروں اور ان کے حفظ مراتب سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔استاد امانت علی خان برصغیر کے ایسے فنکار تھے جنھیں کلاسیکی موسیقی سے وابستگی کے باوجود کمرشل فنکاروں جیسی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ان کی سحر انگیز شخصیت اور پختہ فن کے علاوہ کیریئر کے خاص حصے میں غزلیں اور ملی ترانے گانا تھا، جس کے باعث انھیں بہت زیادہ شہرت ملی تھی۔ استاد امانت علی خان کے گائے ملی نغمے نصف صدی گزر جانے کے بعد آج بھی مقبول ہیں۔استاد امانت کا گایا یہ ملی گیت آدھی صدی بعد بھی فشار ِخون تیز کر دیتا ہے۔ آئی ایس پی آر نے مذکورہ ترانے کو شفقت امانت کی آواز میں دوبارہ ریکارڈ کیا ہے۔ یہ ملی نغمہ کرم حیدری نے لکھا اور اس کی دھن موسیقار اختر حسین اکھیاں نے موزوں کی تھی جو امانت خاں کے قریبی دوست تھے۔’ایہہ دھرتی میرا سونا یارو میں ایہدا سنیارا‘۔۔۔استاد امانت کا گایا یہ پنجابی ملی گیت بھی بے حد مقبول ہوا، یہ گیت نواز نے لکھا، کالے خاں نے کمپوز کیا اور ریڈیو لاہور سے اعظم خان اس کے پروڈیوسر تھے۔’کب آو گے،مورا تم بن جیارا اُداس رے‘۔۔۔۔ٹھمری کی بندش اور راستھائی استاد امانت علی خان نے اس وقت بنائی جب وہ بذریعہ ہوائی جہاز محوِ سفر تھے اور
جہاز فضاوں میں ہچکولے لے رہا تھا اور مسافر دعائیں مانگ رہے تھے کہ یہ پرواز خیریت سے زمین پر لینڈ کر جائے۔ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام بھی آئے‘ ادا جعفری کی یہ غزل استاد امانت کے ہونٹوں پر آئی تو اساطیری موسیقی کی شکل اختیار کر گئی۔اس کے علاوہ ’آ میرے پیار کی خوشبو‘، ’پیا نہ آئے‘، ’پھول پھول نے لی انگڑائی‘، ’میری داستان حسرت وہ سُنا سُنا کے روئے‘، ’موسم بدلا رت گدرائی، اہل ِجنوں نے لی انگڑائی‘ اور ’انشا جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کا لگانا کیا‘ استاد امانت علی خان کی گائی ایسی غزلیں ہیں جنھیں پاکستان کا قومی ثقافتی اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔استاد امانت کی گائی مشہور آیٹمز کی تفصیلات جن میں شاعری اور دھن نگاری کے حوالہ جات درج کئے گئے ہیں
وہ ملک کے مشہور براڈ کاسٹرز خواجہ نجم الحسن اور اعظم خان نے کنفرم کیے۔غزل گائیک کا طعنہ اور غزل گائیکی کی ابتدا:استاد امانت بنیادی طور پر خیال گائیکی اور ٹھمری کے گائیک تھے۔ پچاس کی دہائی میں استاد برکت علی خان اور اعجاز حضروی کے بعد جب غزل گائیکی میں مہدی حسن کا نام ہوا تو کلاسیکی موسیقی سے وابستہ فنکاروں نے غزل گائیکی کو اپنانے میں عار نہ محسوس کی۔مہدی حسن سے قبل کلاسیکی موسیقی سے وابستہ خاں صاحبان غزل گائیکی کو فنی طور پر سنجیدہ اور بڑا کام خیال نہیں کرتے تھے۔نایاب علی خان کہتے ہیں کہ کہ میرے تایا استاد امانت علی خان تو خیال گائیکی اورٹھمری گاتے تھے، ان کی ایک بہت بڑے غزل گائیک سے بحث ہو گئی تھی جس نے شراب کے نشے میں استاد امانت کو طعنہ دیا تھا کہ غزل گائیکی بہت بڑا اور مشکل فن ہے۔ اس پر استاد امانت خان نے کہا تھاکہ میں کلاسیکل گویا ہوں راگ گاتا ہوں، غزل گانے کے لیے مجھے میرے مقام سے نیچے آنا ہو گا۔غزل گائیک نے کہا کہ زمانہ مجھے شہنشاہ غزل مانتا ہے اور اس شعبہ میں میرے سوا دوسرا کوئی نہیں۔ اس پر استاد امانت اگلے دن ریڈیو گئے اور انھوں نے باجا پکڑ کر حیدر علی آتش کی غزل ’یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے‘ گا دی جسے ملک گیر شہرت نصیب ہوئی۔