برصغیر میں مغل سلطنت کا آفتاب تقریباً پونے چار سو سال تک آب و تاب سے چمکتا رہا۔ 1526ء میں یہاں جس سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تھی، اس کا اختتام 1857ء میں ہوا۔صدیوں پر محیط مغلیہ دور کے بے شمار واقعات تاریخی اعتبار سے نہایت اہمیت کے حامل اور قابلِ ذکر ہیں۔
عابد خان اے آر وائی ڈیجیٹل پر اپنی تحریر میں لکھتے ہیں ،مغلیہ دور میں علم و فنون میں یگانہ اور بے مثال شخصیات کے علاوہ کئی جیّد علما اور برگزیدہ ہستیوں نے جنم لیا اور روحانیت کی وہ شمعیں روشن ہوٸیں جو آج بھی اس راستے کو منوّر کیے ہوئے ہیں۔مغل دور میں خوف ناک اور خوں ریز جنگیں بھی ہوٸیں اور شاہ کار و لازوال تعمیرات بھی جو آج عجاٸبِ عالم میں شامل ہیں۔ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں نہایت قابل اور باصلاحیت لوگ بھی سامنے آئے جن کے فن پارے اور تخلیقات کے نمونے آج بھی لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ غرض مغل دور بے شمار تاریخی واقعات اور افسانوں سے مزیّن ہے، مگر انارکلی اور شہزادہ سلیم کے عشق کی داستان کو لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ اس افسانے میں وہ تمام لوازمات موجود ہیں جو کسی کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔ حسن کی رعنائیاں، ع
شق کی بے خودی اور ان محبّت کرنے والوں کے راستے میں حائل ظالم سماج، جو ہمیشہ سے ہی اس خطّے کے لوگوں کے لیے باعثِ کشش رہا ہے۔انارکلی اور شہزادہ سلیم کی محبّت کے افسانے کو لازوال شہرت بخشنے میں سب سے زیادہ کردار اس موضوع پر بنائی گئی فلموں اور ڈراموں کا ہے۔ اس افسانے کو آٹھ فلموں اور کئی بار ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹی وی اور اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے کی خوش قسمتی کہ اسے امتیاز علی تاج جیسے مصنّف کا قلم نصیب ہوا۔امتیاز علی تاج کی تخلیقی قوّت نے اس میں ایسا رنگ بھرا کہ اس کی تاریخی حیثیت کہیں پس منظر میں گم ہوگئی۔
اس نے عوام میں ایسی مقبولیت حاصل کی کہ لوگوں نے اسےحقیقیت تسلیم کیا۔ ڈرامے کی مقبولیت کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والے تنازع اور بحث کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے۔ اس افسانے پر تاریخ دانوں اور عوام کی راٸے بالکل مختلف ہے۔ سچ یا جھوٹ مگر آج انار کلی ایک طرح سے عوامی تاریخ بن چکی ہے۔خود امتیاز علی تاج نے بھی اس کی تاریخی حیثیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کبھی اسے تاریخ سمجھا، نہ بیان کیا۔ انارکلی بے شمار بار فلمایا گیا مگر 1960ء میں مہنگی اور بھاری بجٹ کے ساتھ بھارت میں بننے والی فلم مغلِ اعظم کے بعد تو عوامی سطح پر مغل دور حکومت کی تاریخ جیسے انار کلی کے افسانے کے سائے میں گم ہی ہوگئی۔فلم میں اس کہانی کو اس انداز میں پیش کیا گیا کہ انگریزوں کا گھڑا ہوا افسانہ حقیقت میں ڈھل گیا۔
وہ افسانہ جسے انگریز سیّاحوں نے تفریح یا مغل حکم رانوں کو بدنام کرنے کے لیے گھڑا تھا۔ اسے آنکھیں بند کر کے تاریخ سمجھ لیا گیا۔ ویسے اس افسانے کی تاریخی گواہی کسی بھی دور میں میسر نہیں آسکی حتّٰی کہ اکبر نامہ اور تزک جہانگیری میں بھی انارکلی کا ذکر موجود نہیں۔ اگر انار کلی کا قصّہ حقیقی اور سچّا ہوتا تو یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ شہزادہ سلیم جسے دنیا جہانگیر کے نام سے جانتی ہے، اس نے اشارتاً تک اس کا ذکر کہیں کیوں نہیں کیا۔
حالاں کہ افسانے کی رُو سے یہ جہانگیر اور اکبر کی زندگی کا اہم ترین واقعہ سمجھا جاسکتا ہے۔انار کلی کے افسانے کے مطابق اس کا اصل نام نادرہ یا شرفُ النّسا تھا۔ وہ ایک ایرانی تاجر کی بیٹی تھی۔ سفر کے دوران اس کے باپ کو ڈاکوؤں نے قتل کر دیا۔ بعد میں انار کلی کو راجہ مان سنگھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا۔ راجہ مان سنگھ نے اسے تحفے میں بادشاہ اکبر کو پیش کیا۔ نادرہ یا شرفُ النّسا کی خوب صورتی کی وجہ سے اکبر نے اسے انار کلی کا لقب دیا۔ انار کلی اکبر کی پسندیدہ رقاصہ تھی۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ انار کلی کی خاطر اکبر اعظم اور شہزادہ سلیم میں جنگیں تک ہوٸیں، مگر اس دور کے مؤرخین نے اس کا ذکر تک نہ کیا۔
اس دور کے غیر درباری اور عام اہلِ قلم یا مؤرخین بھی اس واقعے پر خاموش ہیں اور شاہی محل کے ان دو اہم ترین کرداروں کا تذکرہ کرنا کیوں گوارا نہ کیا۔انار کلی کا ذکر سب سے پہلے ایک انگریز سیّاح ولیم فنچ نے 1611ء میں کیا۔ اس نے لکھا کہ لاہور میں ایک مقبرہ دیکھا جس کے متعلق بتایا گیا کہ بادشاہ نے اس کنیز کو شہزادے کے عشق کے جرم میں دیوار میں چنوا دیا۔ بعد میں مزید یورپی سیّاحوں نے بھی اس قصّے کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا مگر برصغیر کے لوگ اس سے لاعلم رہے۔ دو صدی بعد ادب میں انار کلی کا افسانہ مقبول ہونے لگا۔ اور مختلف مؤرخین نے اس واقعے کو بیان کیا۔
حالاں کہ اس سے پہلے برصغیر میں انار کلی نام کے کسی کردار کو لوگ جانتے تک نہ تھے۔ انگریز سیّاحوں کی لکھی ایک فرضی داستان صدیوں بعد برصغیر کے لوگوں کی تاریخ بن گئی۔اب سوال یہ ہے کہ اگر انار کلی افسانہ ہے تو لاہور میں موجود مقبرہ کس کا ہے اور اسے انار کلی کا مقبرہ کیوں کہا جاتا ہے؟ بعض مؤرخین اور تذکرہ نویسوں کے مطابق یہ مقبرہ شہزادہ سلیم کی بیوی صاحب جمال کا ہے جو جہانگیر نے خود تعمیر کروایا تھا۔اس کے انار کلی سے منسوب ہوجانے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ یہاں اناروں کے درخت ہوتے تھے جو بعد میں نہیں رہے۔ یہ قصّہ اور اس سے متعلق افسانوی روایات چند کتابوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتیں۔ وہ دیوار جس میں انار کلی کو زندہ چنوا دیا گیا تھا، اس کے آثار بھی ناپید ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اکبر بادشاہ اور شہزادہ سلیم کے درمیان ایک بڑی جنگ اور خوں ریزی ہوئی، مگر اس پر تاریخ خاموش ہے اور نہیں معلوم کہ یہ کہاں لڑی گئی، کتنے لوگ قتل ہوٸے، کس سالار نے کس کا ساتھ دیا اور شکست کے بعد شہزادہ سلیم کی فوج کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ شہزادہ سلیم نے اپنے دور کے ایک اہم بادشاہ، اکبر کے مقابلے پر اتنا بڑا لشکر کیسے جمع کرلیا اور اس سپاہ کے اخراجات کیسے پورے کیے جاتے تھے۔بعض روایات کے مطابق انارکلی کا جس سن یعنی 1599ء کے آس پاس انتقال ہوا
اس وقت اکبر بادشاہ لاہور میں موجود ہی نہیں تھا۔ روایات کے مطابق شیش محل کے آئینے میں انار کلی اور شہزادہ سلیم کو ایک دوسرے کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھا گیا۔ دل چسپ حقیقیت یہ ہے کہ اس وقت شیش محل تعمیر ہی نہیں ہوا تھا۔ انار کلی کی داستان میں بے شمار ایسے واقعات ہیں جو کبھی پیش آئی نہ ہی ان کے شواہد ملتے ہیں۔ انار کلی کی قبر پر شہزادہ سلیم نے ایک شعر لکھوایا کہ اگر محبوب کی شکل دیکھ لوں تو تا حشر ربّ کا شکر ادا کروں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قبر میں مدفون خاتون کوئی عام نہیں بلکہ بہت خاص تھی۔ اب دل چسپ بات یہ ہے کہ اگر لاہور میں واقع مقبرہ انارکلی کا نہ بھی ہو تو یقیناً کسی اہم خاتون کا ہے مگر اس کا کہیں کوئی ذکر کیوں موجود نہیں۔صدیاں گزر چکی ہیں اور شاید ہی اب کبھی ہم اس حقیقت تک پہنچ سکیں کہ اس قبر میں کون مدفون ہے۔ یہ مقبرہ بھی انار کلی کو زندہ چنوائے جانے کے افسانے کی تردید ہے کیوں کہ کھدائی کے باوجود اس میں سے کسی دیوار کے آثار نہیں ملے۔ مختصر یہ کہ عوام کے ذہنوں میں بسی انار کلی کو تو شاید ہی کبھی نکالا جا سکے مگر یہ محققین کا فرض ہے کہ تاریخ و آثار سے متعلق اپنے علم اور تحقیق استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے اس واقعے کی حقیقت کو سامنے لائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو شاید آنے والی نسلیں مغل دور کی تاریخ کے نام پر انار کلی کا یہ قصّہ ہی دہراتی رہ جائیں گی۔