، ان بالوں پر تحقیق کی گئی تو کیا انکشاف ہوا تھا ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگا افتخار گیلانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے کئی بار اشتراک کرکے پاکستان کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت کیلئے تویہ خطرہ تھا ہی، اسرائیل اسکو اسلامی ہتھیار سے تشبیہ دیتا تھا۔ فرانس کے اشتراک سے پاکستان میں
پلوٹونیم ری پرسیسنگ کی جانکاری تو سبھی کو تھی،مگر چھن چھن کر یہ خبریں گشت کر رہی تھیںکہ پاکستانی سائنسدان یورینیم پر بھی کام کر رہے ہیں۔ مگر کہاں او ر اسکا پلانٹ کدھر ہے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا۔منصوبہ تھاکہ پلانٹ کا پتہ چلتے ہی اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد بھارتی سرزمین سے فضائی کارروائی کرکے اسکو تباہ کردیگا۔ جیسا کہ بعد میں 1981 میں اسنے اسی طرح کا مشن کرکے عراقی نیوکلیر ریکٹر کو تباہ کردیا گیا۔ بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ذمہ اس پلانٹ کا پتہ لگانا تھا۔ جب کئی ایکشنز ناکام ہوئے، تو بتایا جاتا ہے، کہ بھارتی خفیہ اہلکاروں نے پاکستان کے مختلف علاقوں سے حجاموں کی دکانوں سے بکھرے بالوں کے نمونے اکھٹے کرنے شروع کر دیئے۔ ان کو ٹسٹ ٹیوبوں میں محفوظ کرکے لیبل لگا کر بھارت بھیجا جاتا تھا، جہاںانتہائی باریک بینی سے ان میں جوہری مادہ یا تابکاری کی موجودگی کی جانچ ہوتی تھی۔ سال ہا سال چلے اس مشن میں ایک دن ایک سیمپل میں یرینیم ۔235 کی تابکاری کے ذرات پائے گئے۔ اور یہ تقریباً ثابت ہوگیا کہ پاکستان 90فیصد افزودگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر چکا ہے، جو ہتھیار بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ نیوکلیر پاور پلانٹ کیلئے 4یا5فیصد افزودگی ہی کافی ہوتی ہے۔اور یہ سیمپل اسلام آباد کے نواح میں کہوٹہ کے پاس ایک حجام کی دکان سے حاصل کیا گیا تھا۔مگر تب تک بھارت میں اندرا گاندھی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔1978میں نئے وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی کے پاس جب راء کے افسران یہ منصوبہ لیکر پہنچے، تو انہوں نے نہ صرف اسکی منظوری دینے سے انکار کیا، بلکہ صدر ضیاء الحق کو فون کرکے بتایا، کہ بھارت کہوٹہ پلانٹ کی سرگرمیوں سے واقف ہے۔را نے ڈیسائی کو اسکے لئے کبھی معاف نہیں کیا۔ ان کے مطابق وزیر اعظم نے پاکستانی صدر کو یہ بتا کر را کے ایجنٹوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا۔ اور اس کے بعد کئی برسوں تک را اس طرح کا نیٹ ورک پاکستان میں دوبارہ قائم نہیں کرسکا۔ڈیسائی واحد شخص ہیں ، جنہیں پاکستان کے اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ’’نشان پاکستان‘ اور بھارت کے اعلیٰ ترین ایواڑ’’بھارت رتن‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ ڈیسائی کے اس قدم سے پاکستان نے نہ صرف کہوٹہ کو فضائی حاٹیکس سے محفوظ کیا، بلکہ پس پردہ سفارتی کوششوں سے اسرائیل کو باور کرایاکہ پاکستانی نیوکلرئ ہتھیار اسکے لئے خطرہ نہیں ہے۔