جس رکشے میں بیٹھ کر کالج جاتی تھی تو میری اس سے دوستی ہو گئی وہ شادی شدہ تھا
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اس کے پورے بدن پر نیل پڑے ہوئے تھے اور میں اس کی حالت دیکھ کر کانپ رہا تھا اگر میرے بس میں ہوتا تو جس نے اس کا یہ حال کیا تھا اس کا بھی یہی حال کر تا اس کو اس حالت میں دیکھ کر واقعی ہی کانپ اٹھا تھا ۔
نازک مزاج اور ذہین لڑکی تھی یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی تھی اور وہ بہت مشہور تھی۔ میری ملاقات اس سے ایک ایسے فنکشن میں ہوئی تھی جس میں مجھے مجبوراً بلو ایا گیا تھا ویسے تو میں ایسی تقریبات میں نہیں جا یا کرتا لیکن اس دن شاید میری قسمت مجھے کھینچ کر لے گئی وہ سامنے بیٹھی ہوئی تھی وہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ پرفارمنس پر تالیاں بجا رہی تھی۔ میں نے جب اس کو دیکھا تو پھر بس اس کو دیکھتا ہی رہ گیا زندگی سے بھر پور لڑکی مجھے وہ بہت اچھی لگی حالانکہ اس کے ساتھ اور بھی لڑکیاں تھیں لیکن اس میں جو بھی کشش تھی وہ کسی لڑکی میں نہیں تھی۔ یہ میری اس سے پہلی ملاقات تھی۔ دوسری ملاقات میں تو میں اس کی صورت اور ذہانت کا دیوانہ ہوتا چلا گیا وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کی بیٹی تھی اس کے والد اردو ادب کے ٹیچر تھے اچھے اشعار کہا کرتے تھے میں ندا سے ملاقات سے پہلے اس کی والد کی شاعری کا دیوانہ تھا اور ان کے اشعار مجھے یا د تھے اس لیے میں نے جب ندا کو اس کے والد صاحب کے اشعار سنائے تو وہ سمجھ گئی تھی۔
کہ یہ تو میرے والد صاحب کے لکھے ہوئے اشعار ہیں۔ تو وہ حیران رہ گئی واہ آپ نے تو پا پا کو اچھی طرح سے پڑھ رکھا ہے ہاں بہت اچھی طرح اور اب میں ان کی صاحب زادی کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔۔ میں مسکرا کر بو لا بہت مشکل ہے جنا ب ۔ آپ مجھے اتنی آسانی سے نہیں پڑ ھ سکتے۔ میں کوئی کتاب نہیں ہوں جس کو ایک بار پڑھ کے بند کر دیا جائے یہ تو میں بھی جانتا ہوں اس کو دیکھتا ہوئے کہا ہمارے درمیان شاعرانہ باتیں ہوا کرتی تھیں اور پکا ارادہ کر لیا تھا کہ میں اپنی زندگی کی ساتھی اسی کو ہی بناؤں گا مجھے یقین تھا کہ میرے یا ندا کے گھر والے اس رشتے سے انکار نہیں کریں۔ دونوں کی دوستی پیار میں بدلنے لگی تھی۔ ایک دن وہ اچانک وہ سب کچھ ہو گیا جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا آج وہ پورے بدن سے کانپ رہی تھی اس کے پورے جسم پر نیل کے گہرے نشانات تھے۔ عاشقوں کی طرح اس سے پوچھنے لگا کہ ندا بتاؤ بتاؤ تمہیں کیا ہوا ۔یہ نیل کے نشان ۔ یہ کانپتا جسم یہ سب کیا ہے۔
کس نے تمہارا یہ حال کیا بے درد اور ظالم لوگوں نے کون بے درد اور ظالم لوگ۔ وہ بہت طاقتور لوگ ہیں وہ ہچکیوں سے روتی جا رہی تھی ہم ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ خدا کے لیے ندا کچھ تو بتاؤ ہوا کیا ہے۔یہ سب کیسے اور کیوں ہو گیا آخر ہو ا کیا ہے۔ ندا مجھے پوری بات بتاؤ پھر اس نے جو اپنی کہانی سنائی وہ سن کر میرا دل لرز گیا میرا دل کرچی کرچی ہو گیا آخر وہ میری محبت تھی اس نے بتا یا کہ وہ یو نیورسٹی جانے کے لیے سڑ ک پر کھڑی تھی ۔ اچانک اس سے کچھ فاصلے پر ایک گاڑی آکر رک گئی اس کے شیشے کالے تھے یعنی ان کے اندر دیکھا نہیں جا سکتا تھا دو آدمی اترے اور میرے پاس آئے اور بالکل میرے قریب آ کر ایک نے خاموشی سے گن نکال لی چلو جلدی سے گاڑی میں بیٹھ جاؤ ورنہ میں یہیں مار کر پھینک دوں گا۔ ضہیب میں اس وقت بہت زیادہ ڈر گئی تھی اور بہت ہی زیادہ گھبرا گئی تھی کہ آخر میں کیا کروں اس وقت۔ کہ سکتے میں آکر رہ گئی آس پاس اور بھی لوگ تھے لیکن کسی کا دھیان ہماری طرف نہیں تھا۔