تیری بیوی کا جتنا جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے! مگر جو حصہ کھلا ہے اس کو دیکھنے کا ہم سب کا حق ھے۔
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) تیری بیوی کے جسم جتنا حصہ ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے مگر جو حصہ کھلا ہے وہ تو شاملاٹ ھے اس کو دیکھنے کا ہم سب کا حق ھے۔کہتے ہیں قاہرہ سے اسوان جانے والی گاڑی میں سوار اس عمر رسیدہ شخص کی عمر کم از کم ساٹھ سال تو ہوگی اور اوپر سے اس کی وضع قطع اور لباس، ہر زاویے سے دیہاتی۔
مگر جہاندیدہ اور سمجھدار بندہ لگتا تھا۔ ایک اسٹیشن پر گاڑی رکی تو ایک نوجوان جوڑا سوار ہوا جو اس بوڑھے کے سامنے والی نشست پر آن بیٹھا۔ صاف لگتا تھا کہ نوبیاہتا ہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ تھی کہ لڑکی نے ا نتہائی نا مناسب لباس برمودہ پینٹس کے ساتھ ایک بغیر بازؤں کی کھلے گلے والی شرٹ پہن رکھی تھی جس سے اس کے شانے ہی نہیں اور بھی بہت سارا جسم دعوت نظارہ بنا ہوا تھا۔مصر میں ایسا لباس پہننا کوئی اچھوتا کام نہیں، اور نہ ہی کوئی ایسا لباس پہنے کسی لڑکی کو شو ہدے پن سے دیکھتا یا تاڑتا ہے۔
مگر دوسرے مسافروں کے ساتھ ساتھ لڑکی کے خاوند کی حیرت دید کے قابل تھی کہ اس بوڑھے نے لڑکی کو دیدے پھا ڑ پھا ڑ کر دیکھنا شروع کر دیا تھا۔چہرے سے اتنا پروقار اور محترم نظر آنے والے شخص کی حرکتیں اتنی اوچھی، بوڑھے کی نظریں تھیں کہ کبھی لڑکی کے شانوں پر تو کبھی لڑکی کی عر یاں ٹا نگوں پر۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ بوڑھے نے اب تو باقاعدہ اپنی ٹھوڑی کے نیچے اپنی ہتھیلیاں ٹیک کر گویا منظر سے تسلی کے ساتھ لطف اندوز ہونا شروع کر دیا تھا۔ بوڑھے کی ان حرکات سے جہاں لڑکی بے چین, پہلو پر پہلو بدل رہی تھی وہیں لڑکا بھی غصے سے تلملا رہا تھا۔ بالآخر اس نے پھٹتے ہوئے کہا: بڑے میاں، کچھ تو حیا کرو، شر م آنی چاہئے تمہیں۔
اپنی عمر دیکھو اور اپنی حرکتیں دیکھو، اپنا منہ دوسری طرف کرو اور میری بیوی کو سکون سے بیٹھنے دو۔بوڑھے دیہاتی نے لڑکے کی بات تحمل سے سنی اور متانت سے جواب دیا: لڑکے، میں نا تو جواباً تجھے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تو خود کچھ شر م و حیا کر۔ نہ ہی تجھے یہ کہوں گا کہ تجھے اپنی بیوی کو ایسا لباس پہناتے ہوئے شر م نہیں آتی؟ تو ایک آزاد انسان ہے، بھلے بغیر کپڑوں کے گھوم اور ساتھ اپنی بیوی کو بھی گھما۔لیکن میں تجھے ایک بات ضرور کہنا چاہتا ہوں، کیا تو نے اپنی بیوی کو ایسا لباس اس لئے نہیں پہنایا کہ ہم اسے دیکھیں۔ اگر تیرا منشا ایسا تھا تو پھر کاہے کا غصہ اور کس بات کی تلملاہٹ؟بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا؛ دیکھ میرے بیٹے، تیری بیوی کا جتنا جسم ڈھکا ہوا ہے اس پر تیرا حق ہے کہ تو دیکھ، مگر اس کا جتنا جسم کھلا ہوا ہے اس پر تو ہم سب عوام کا حق بنتا ہے کہ ہم دیکھیں۔
اور اگر تجھے میرا اتنا قریب ہو کر تیری بیوی کو دیکھنا بُرا لگا ہے تو میرا نہیں میری نظر کا قصور ہے جو کمزور ہے اور مجھے دیکھنے کیلئے نزدیک ہونا پڑتا ہے۔بوڑھے کی باتیں نہیں اچھا درس تھا مگر ذرا ہٹ کر، لوگوں نے جان لیا تھا کہ بوڑھا اپنا پیغام اس جوڑے تک پہنچا چکا ہے۔ لڑکی کا چہرہ شر م سے سرخ ہو رہا تھا تو لڑکا منہ چھپائے چلتی گاڑی سے اترنے پر آمادہ۔ اور ہوا بھی ایسے ہی، اگلے اسٹیشن پر لڑکا گاڑی سے اترنے کیلئے باہر کی طرف لپکا۔