حضرت علی ؓ کا یہ فرمان !شادی سے قبل ضرور پڑھ لینا ، بے وفا عورت کی
حضرت علی ؓ کے پاس ایک شخص آیا اور ان کی خدمت میں کہنے لگا کہ حضرت علی ؓ میں کسی کو پسندکرتا ہوں اور ان سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے ذہن میں ایک سوال ہے سوال یہ ہے کہ کیا میرے لئے وہ وفادار بیوی ثابت ہوگی یا نہیں بس یہ کہنا تھا تو حضرت علی ؓ نے فرمایا اے شخص یاد رکھنا جو عورت اپنے والدین کی توہین کرتی ہو اپنے استاد کی بے احترامی کرتی ہو اپنے گھر کی شکایتیں کرتی ہو تو سمجھ جانا یہ آنے والےوقت میں ایک
اچھی بیوی ثابت نہیں ہوگی عورت کو عورت اس لئے کہاجاتا ہےکہ اس کے وجود میں چھپنا چھپانا ہے جو عورت اپنے گھر کے عیب کسی اور کے سامنے بیان کرے تو سمجھ جانا کہ آنے والے وقت میں وہ تمہارے عیب بھی لوگوں کے سامنے بیان کرے گی جسے سن کر اس شخص نے کہا کہ حضرت علی ؓ مجھے کوئی دعا بتائیںجسے پڑھ کر انسان واضح ہوجائے جس پر حضرت علی ؓ نےفرمایا اے شخص اس زمین میں سے سب سے بدترین عمل جھوٹ ہے جو تمام گناہوں کی جڑ ہے یا درکھنا جس عورت کے عمل میں جھوٹ ہو فریب ہو منافقت ہو کبھی بھی وہ عورت کسی کے ساتھ وفا نہیں کرسکتی اس واقعے کے بارے میں بتایا جس میں بے وفا عورت کی پہچان کے حوالے سے حضرت علی نے کچھ فرمایا تھا ۔ اسی طرح حضرت علی ؓ کے حوالے سے ایکاور واقعہ بھی ہے
حضرت علی ؓ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس ایک فقیر آتا ہے اور کہتا ہے اللہ کے نام پر مجھے کچھ دے دیں جس پر حضرت علی ؓ اپنے بیٹے حضرت حسن ؓ کو گھر بھیجتے ہیں اور کہتے ہیں کہ گھر جاؤ اور اپنی والدہ سے پوچھو گھر میں کیا ہے ان کی والدہ کہتی ہیں کہ چھ درہم گھر میں موجود ہیں جس پر حضرت حسن واپس آتے ہیں اور حضرت علی ؓ کو فرماتے ہیں کہ گھر میں صرف چھ درہم موجود ہیںحضرت علی ؓ کہتے ہیں جاؤ اور وہ چھ درہم لے آؤ جس پر ان کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ انہیں کہنا اس کے علاوہ گھر میں کچھ نہیں ہے کھانے کا بھی بندوبست کرنا ہے اور ساتھ میں انہیں چھ درہم بھی دے دیتی ہیں حضرت حسن آتے ہیں اور حضرت علی ؓ کو سب بتاتے ہیں کہ والدہ نے یہ کہا ہے جس پر حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ اپنی والدہ سے کہو کہاللہ پر توکل رکھو
حضرت علی وہ سارے چھ درہم اس فقیر کودے دیتے ہیں اور اس کے بعد باہر نکلتے ہیں محنت کے لئے رات کے کھانے کا بھی بندوبست کرنا ہوتا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ ایک یہودی اونٹ بیچ رہا تھا وہ اس سے پوچھتے ہیں کہ تم بتاؤ اس اونٹ کی قیمت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اگر ابھی نقد قیمت آپ دیں گے تو ایک سو بیس درہم اگر کچھ دنوں بعد دیں گے تو اس کی قیمت ایک سو چالیس درہم ہے حضرت علی اسے کہتے ہیں کہ ایک سو چالیس درہم مجھے دے دو میں تمہیں پانچ دن بعد اس کی قیمت دے دوں گا وہ اونٹ اس سے خرید لیتے ہیں اور بازار کی طرف جاتے ہیں تا کہ اسے فروخت کیا جاسکے اور رات کے کھانے کا بندو بست کیا جاسکے اس کی نیلامی کے لئے لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور اونٹ کافی زبر دست تھا اور کافی صحت مند بھی تھااس کی چمکبھی بہت زبردست تھی
اور کھال بھی بہت زبر دست تھی تو لوگ وہاں پر جمع ہوتے ہیں اس کی نیلامی ہوتی ہے سو درہم سے شروع ہوکر آخری بولی دوسو درہم میں جا کر ختم ہوتی ہے اور وہ اونٹ حضرت علی ؓ دوسو درہم میں بیچ دیتے ہیں اس طرح جب وہ گھر جارہے ہوتے ہیں تو راستے میں اس یہودی کے پاس جاتے ہیں اور اسے ایک سو چالیس درہم دے دیتے ہیں جس پر وہ یہودی کہتا ہے کہ اگر آپ نے آج ہی پیمنٹ کرنی تھی تو آپ مجھے ایک سو بیس درہم کا کہہ کر لے لیتے لیکن حضرت علی کہتے ہیں کہ میں نے تم سے ایک سو چالیس کی بات کی تھی تو تمہیں ایک سو چالیس درہم ہی دوں گا اس کے بعد وہ گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ لوساٹھ درہم حضرت فاطمہ ساٹھ درہم دیکھ کر حیران ہوجاتی ہیں وہ کہتی ہین کہ گھر میں تو صرف ساٹھ درہم تھے اور وہآپ نے فقیر کو دے دیئے تھے تو یہ کہاں سے آئے جس پر حضرت علی ؓ کہتے ہیں تم نے قرآن میں نہیں پڑھا اللہ نے قرآن میں لکھا ہے کہ رزق دینے والی اللہ کی ذات ہے ۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔آمین