in

میرے ابا کو سب پتا تھا کہ بیٹی جوان ہوچکی ہے کئی دفعہ ابانے میرے جسم پر سرخ نشان کو دیکھا

میرے ابا کو سب پتا تھا کہ بیٹی جوان ہوچکی ہے کئی دفعہ ابانے میرے جسم پر سرخ نشان کو دیکھا

وہ ایک معمولی شکل وصورت کی کالے رنگ کی معصوم لڑکی تھی ۔ وہ چار سال کی تھی جب اسے ماں سے پہلا تھ۔پڑ پڑا ۔ وہ کچھ دیر روئی، سنبھل گئی سرخ گال بھی کچھ دیر بعد اپنی اصل رنگت میں آ گیا۔تکلیف رفع ہو گئی، نف۔رت اس بچی کے گال سے دل میں اتر گئی۔منظر بدلتا ہے۔ بچی ایک اندھیرے سٹور میں خوف۔زدہ بیٹھی ہے، گالوں پر سوک۔ھ چکے آنس۔ووں کے نشان ہیں۔ وہ اپنے کمزور گ۔ھٹنوں کو بانہوں میں سمیٹے اپنے باپ کی منتظر ہے

کہ وہ آئے گا اور اسے سٹور میں بند کئیے جانے کی س۔زا سے نجات دلائے گا اس نے غلطی سے ماں کا قیمتی چینی دان توڑ دیا تھا۔اس کے وجود میں بھی کچھ ٹوٹا تھاکیا شاید بھروسہ شاید اعتماد نہیں اس کا ماں سے جذباتی واسطہ ٹوٹ گیا تھا۔ ۔ چپ۔لوں کے سرخ نشان اس کی کمر پر اس رشتے کی م۔وت کا کتبہ تھے۔۔وقت مزید آگے کو بھاگا بچی نے اپنا یونیفارم دھونا، استری کرنا اور بال باندھنا سیکھ لیے ہیں۔ اب وہ سکول جاتی ہے اوراس نے دوست بنائے ہیں۔

اس کے ٹیچرز اس سے خوش ہیں۔ وہ جو اپنے گھر کی معط۔ون ترین ہستی ہے وہ سکول کی شائیننگ سٹار ہے اس کی مس اسے مائی ڈانسنگ بٹر فلائی کہتی ہیں اور ڈانسنگ بٹرفلائی کے پروں میں انوکھے رنگ بھرتے چلے جاتے ہیں۔ کل میرے سکول میں اینول رزلٹ فنکشن ہے، سب کے مماں پاپا آئیں گے، آپ نے بھی آنا ہے ۔ وہ اپنے ماں باپ سے کہہ رہی ہے۔ میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ان چونچل۔وں کے لئے ماں جواب دیتی ہے۔وہ آس بھری نظروں سے باپ کو تکتی ہے

ابو بیٹا میری تو کل ضروری میٹنگ ہے۔بچی اپنی امید اور جوش اس کمرے کے دروازے میں رکھ کر پلٹ آتی ہے۔ اگلے دن سکول میں وہ اپنی فرسٹ پوزیشن کی ٹرافی اور انعام خود وصول کرتی ہے اور اس ہال میں اپنا رزلٹ خود وصول کرنے والی وہ تنہا بچی ہے۔گھر واپس آ کر وہ اپنا رزلٹ اور سنہری ٹرافی پلنگ کے نیچے رکھے ایک خالی گتے کے کارٹن میں ڈال دیتی ہے۔اس کارٹن میں اس کی زندگی کے ادوار، اس کی امیدیں اور جذباتی وابستگ۔یاں پڑی ہیں۔وقت کا پہیہ گھومتا رہا، گھومتا رہا اس نے توقعات چھوڑ دیں ہیں، وہ جذبات چھپانے میں ماہر ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے باطن میں ایک ایسا جہ۔نم بھ۔ڑکا لیا ہے جہاں ہر خوش گمانی، رشتوں کی لطافت اور توقعات بھ۔ڑ بھ۔ڑ جلتی ہیں۔۔وہ بچی نوجوان لڑکی بن چکی ہے۔خوبصورت، دلکش مگر زہ۔ریلی۔سکول جانے والے قدم اب کالج کی راہ پر چل پڑے ہیں اور بغاوت اور لاتعل۔قی اس کے چہرے پر نارنجی بن کر بھ۔ڑکتی ہے

چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھنک کر رکھ دینے والی لاپرواہ ماں اس کی اٹھ۔ان اور تیور دیکھ کر ہڑبڑا جاتی ہے ۔ ظلم نے اب دوسرا روپ اختیار کر لیا ہے اور اب اس کی چال ڈھال اور رویے کو جوانی کے طعنوں اور حسن پر ناز کے ترازو میں تولنے کا آغاز ہوتا ہے ماں کو بچپن سے روا رکھا جانے والا بے رحمی کی حد تک لاتعلق سلوک جانے کیسے بھول گیا مگر اسے نہیں بھولا وہ ڈانسنگ بٹر فلائی اب کالج کی ڈرامہ سوسائٹی اور میگزین کی صدر ہے۔ وہ تقریریں کرتی ہے، ڈرامے لکھتی ہے،آرٹ اور ڈرائینگ کے مقابلوں میں کالج کا نام روشن کرتی ہے۔وہ لڑکی جس کا اندر صرف سیاہ ہے وہاں ماں کی بے حسی اور لاتعلقی کا اندھیرا ہے اور وہ گھنٹوں اس بات پر ک۔ڑھتی ہے کہ آخر اس کا باپ یہ سب ابنارمل ماحول دیکھ کر بھی خاموش کیوں رہتا ہے وہ حیران ہوتی ہے کہ لوگ اس میں رنگ کیسے دیکھتے ہیں جبکہ اسے ہمیشہ سے سیاہ کہا گیا، سیاہ سمجھا اور سیاہ بنایا گیا۔۔وہ چہکتی اور کھلکھلاتی لڑکی گھر کی دہلیز پہ قدم دھرتے ہی سردمہر، سپاٹ اوربے حس بت میں بدل جاتی ہے۔

اس کی پناہ گاہ اس کا کمرہ اور کتابیں ہیں۔کتابیں جن میں ایک مثالی خاندان ہے اور ماں کی گرم جوش آغوش ہے محبت کے مظاہرے ہیں۔۔ اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے کے الفاظ پر وہ بار بار ہاتھ پھیرتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ اس نے ان مناظر میں، خوش باش اور پر محبت خاندانی کہانیوں میں خود کو تصور کرنا شروع کر دیا ہے یہ ذہنی فرار اسے ان وقتوں میں بے حد مدد دیتا ہے جب اسکی ماں اس پر چیخ۔تے چلاتے ہوئےاس کے بخ۔ئیے ادھ۔یڑتے ہوئے اسے ڈھ۔یٹ، بدبخ۔ت اور لع۔نتی کہتی ہے۔وہ اپنے تصوراتی قلعے میں اپنی مہربان تصوراتی ماں کی بانہوں میں سمٹ کر خود کو بچا لیتی ہے۔وہ دہری زندگی جی رہی ہے ۔ وقت کو کون روک سکا ہے وقت تو بڑھتا رہا، آگے کو چلتا رہا۔ نفرت میں اضافہ ہوتا رہا، لاتعلقی بڑھتی رہی، گھر کی فضا جہنم تھی، جہنم ہی رہی یہاں تک کہ وہ دن آن پہنچا جب اسے گھر چھوڑ کر ہاسٹل جانا ہے وہ اس قدر خوش ہے کہ ایک ہفتہ پہلے ہی اپنا سارا سامان تیار کر چکی ہے۔ بالاخر وہ اس دم گھ۔ونٹتے ماحول سے نکل جائے گی۔

اور پھر وہ نکل بھی گئی۔اب یونیورسٹی کی دنیا ہے نئی دوستیاں ہیں۔نئی کامیابیاں مگر روح تو وہی پرانی ہے اس کارٹن میں اب کئی ٹرافیاں ہیں، کئی اسناد، رزلٹ کارڈز ہیں اور سب سے نیچے وہ امید اور ماں سے ٹوٹا ہوا تعلق پڑا ہے جسے وہ دفن کرنا بھول گئی ہے۔وہ قیمتی جاپانی گڑیا بھی وہیں پڑی ہے جسکے بال سیاہ اور لباس سرخ ریشم کا ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں ایک گٹار ہے ۔ وہ گانے والی گڑیا جس کے ٹوٹنے پر اس قدر بے رحمی سے اس کے بال نوچے گئے تھے کہ دنوں جڑیں دکھتی رہی تھیں۔۔اب وہ کچھ بدل گئی ہے۔ سمسٹر کے اختتام پر ملنے والے رزلٹ کی تصویر وہ ابا کو پاس ہو گئی ہوں کے ٹیکسٹ کے ساتھ واٹس ایپ کر دیتی ہے۔ اور جواب کی توقع بھی نہیں رکھتی۔ حالانکہ ابا بیچارے وہ جواب بھی دے دیتے ہیں اور فون بھی کر لیتے ہیں ۔دن گزر رہے ہیں، مہینوں اور پھر سالوں میں ڈھل رہے ہیں۔ ہاسٹل اور یونیورسٹی کی دنیا سے بھی نکلنے کا وقت آن پہنچا ہے وہ اپنا فائنل رزلٹ تھامے،ایک ہاتھ سے ہینڈ کیری گھسیٹتی اسی دنیا میں لوٹ رہی ہے

جہاں اسے زندہ رہنے کے لئے ایک تصوراتی دنیا بسانی پڑی تھی۔ جہاں اسے ایک باغی، نافرمان اور لعنتی سمجھا گیا۔ جہاں اس کا بچپن خود پسند رویوں نے چھین لیا کوئی یہ راز نہیں جانتا وہ بہت پہلے سے بوڑھی ہو چکی ہے۔ صدیوں کے زہر بھرے تلخ تجربوں کے گھونٹ اس نے دس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی پی لیے تھے۔خود انحصاری نے اسے رشتوں کے بھرم ، انکی ضرورت اور موجودگی کی اہمیت سے ناواقف کر دیا ہے۔ اسے جذباتی سہاروں کی عادت نہیں رہی۔ وہ رشتے بنانے سے متنفر ہو چکی ہے اتنی کہ اپنی طرف بڑھنے والے قدموں کو نفرت سے دھتکار دینا اس کے لیے معمولی بات ہے اور اب عمر کے اس مقام پر، کہ جب اس کا دامن بے توجہی کے، خ۔ونی رشتوں کی بے حسی، ذہن۔ی لاتعلقی، جذباتی استحصال کے سلگتے انگاروں سے بھر چکا ہے۔ رشتوں ، محبتوں اور بھروسے سے اعتماد اٹھ چکا ہے، وہ چوکنی بلی کی مانند ہر میٹھے محبت بھرے جملے پر بھڑک اٹھتی ہے اور اپنی پناہ گاہ کے محفوظ اندھیروں میں جا چھپتی ہے ۔

اس دہری شخصیت اور شدید نفسیاتی ٹوٹ پ۔ھوٹ کی شکار لڑکی سے اس کی ماں چاہتی ہے کہ وہ شادی کر لے۔وہ عورت جس نے ہمیشہ شوہر اور بیوی کے رشتے کی بدترین تصویر اپنے بچوں کو دکھائی، وہ چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی ایک اچھی بیوی بنے۔وہ عورت جس کی بیٹی نے اپنی الٹی سیدھی پونی بنانے سے یونیورسٹی کی ڈگری وصول کرنے تک اپنا ہر کام خود کیا ہے۔ ہر موقع پر جذباتی تنہائی کو سہنا سیکھا ہے ، ہاسٹل کی بالکونیوں میں دیر رات تک ٹہلتے ہوئے ہواؤں کو دکھ سنائے ہیں، بلیوں سےخوشیاں بانٹی ہیں ، وہ اب چاہتی ہے کہ اس کی بیٹی اس کی گود میں سر رکھ کر اپنا حال اسے سنائے۔ وہ اس بات پر الجھتی ہے۔ کہ آخر ایک جوان لڑکی زندگی کے رنگوں سے اسقدر بیزار کیوں ہے کہ ساری عمر کی تنہائی کو ترجیح دے چکی ہے وہ ماں نہیں جانتی اس کی بیٹی نے ایک اور نفسیاتی نسل پیدا کرنے سے بہتر جانا کہ وہ ساری عمر تنہا رہے وہ لڑکی وہ سیاہ تتلی اپنا تنہا وجود سیاہ لفظوں کے ک۔فن میں لپیٹے اور اپنا نوحہ آپ پڑھتی بدروح بس ایک پیغام دینا چاہتی ہے

وہ بس یہ کہنا چاہتی ہے کہ بے حسی ۔ق۔ت۔ل سے بھی بڑا جرم ہے اس کا کہنا ہے کہ اولاد وہ بیج ہے جس سے ز ہریلے کانٹوں والی جھاڑیاں بھی اگائی جاسکتی ہیں اور لہلاتے خوشبودار اور دلکش پھول بھی وہ آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر کہتی ہے، خدارا اولاد کا جذباتی استحصال نہ کرو اسے اپنی ذات کا قیدی نہ بناؤ اسے اس حد تک تنہا نہ کرو کہ وہ آپ کے بغیر جینے کا ہنر سیکھ لے پرندوں کو اڑ ہی جانا ہوتا ہے مگر انہیں اڑان بھرنے سے پہلے ہی گھونسلے سے مت دھکیلو برائے خدا نفسیاتی مریض پروان نہ چڑھاؤ تتلیوں کے گلابی، نیلے اور سنہری پروں کو بے رحمانہ غفلت سے سیاہ مت بناؤ۔۔۔۔اولاد ذمہ داری ہے اسے اپنی اور دوسروں کی آزمائش بننے سے بچائیے تا کہ سیاہ تتلی کے پروں میں امید کا سنہری دھبہ جنم لے سکے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جب کوئی عورت آپ پے فدا ہو گی تو یہ اشارہ دے گی

ماہرہ خان کیساتھ سزا کے طور پر کیا کِیا؟خلیل الرحمان قمر کا بڑا انکشاف