آرمی چیفس کی کہانی: کون کیسے آیا اور کیسے گیا؟
لاہور(ویب ڈیسک) پاکستان میں بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی کتنی اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ اس معاملے سے جڑی بحث اور سیاسی رہنماؤں کے بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جو تقریباً گذشتہ ایک سال سے دیے جا رہے ہیں۔ بری فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے متبادل کی تعیناتی اور اس سے جڑے تنازعات اور بیانات س
قطع نظر اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بری فوج کے سربراہان کی تقرریاں اور مدت ملازمت اکثر و بیشتر تنازعات سے گِھری رہی ہے۔پاکستان فوج کے پہلے ’مقامی‘ کمانڈر ان چیف اور فیلڈ مارشل ایوب خان، جنھوں نے پاکستان کا پہلا مارشل لا بھی لگایا، سے لے کر جنرل قمر جاوید باجوہ تک، تقریباً تمام سپہ سالار کسی نہ کسی تنازع میں ضرور الجھے۔حکومت اور وزرائے اعظم سے ڈھکے چھپے اختلافات ہوں یا پھر براہ راست مداخت، بری فوج کے سربراہان کا نام عسکری امور کے ساتھ ساتھ سیاست اور حکومت سے بھی جڑا رہا۔بی بی سی نے اپنی ایک تفصیلی رپورٹ میں ماضی کے آرمی چیفس کا احاطہ کیا ہے اور بتایا یے کہ گل حسن خان فوج کے آخری کمانڈر ان چیف تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس عہدے کا نام بعد میں چیف آف آرمی سٹاف رکھ دیا گیا۔
لیکن گل حسن کسی سول حکمران کی جانب سے قبل از وقت فارغ کر دیے جانے والے پہلے فوجی سربراہ بھی بنے۔ گل حسن خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی بری فوج کے مختصر ترین مدت تک رہنے والے سربراہ تھے جن کا دور صرف ڈھائی ماہ پر محیط تھا۔گل حسن کے بعد پاکستان فوج کی مختصر وقت کے لیے قیادت کرنے والے آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ تھے جن کا آٹھ جنوری 1993 کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد انتقال ہوا تو انھیں آرمی چیف بنے ہوئے صرف ایک سال اور پانچ مہینے ہوئے تھے۔ یہ ملک میں سیاسی کشمکش کا دور تھا اور فوج کی براہ راست مداخلت کی افواہیں عروج پر تھیں۔ نواز شریف وزیر اعظم اور غلام اسحاق خان ملک کے صدر تھے۔
شجاع نواز، جو جنرل آصف نواز کے بھائی ہیں، اپنی ایک کتاب میں لکھتے ہیں کہ غلام اسحاق خان لیفٹینینٹ جنرل فرخ خان کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف اس حق میں نہیں تھے۔ لیفٹینینٹ جنرل عبد الوحید کاکڑ کوئٹہ کور کی کمان کر رہے تھے۔ برائن کلفلی، اپنی کتاب ’پاکستان آرمی اے ہسٹری آف وار اینڈ انسریکشنز‘ میں لکھتے ہیں کہ عبد الوحید کاکڑ کے خیال میں یہ ان کی آخری پوسٹنگ تھی اور وہ ریٹائر ہو کر گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔تاہم صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان اختلافات کے بعد فوج کی سربراہی کا قرعہ ان کے نام نکلا۔ شجاع نواز اپنی کتاب ‘کراسڈ سورڈز’ میں لکھتے ہیں کہ جنرل عبد الوحید کاکڑ پر مارشل لا لگانے کا کافی دباؤ تھا لیکن وہ ملک میں سیاسی کشیدگی کا سیاسی حل تلاش کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ اس وقت صدر مملکت کے پاس آئین کی آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلی کو توڑنے کا اختیار موجود تھا
جسے غلام اسحاق خان بینظیر بھٹو کی پہلی وزارت عظمی کو ختم کرنے کے لیے ایک بار استعمال کر چکے تھے۔جب 1993 میں انھوں نے اس اختیار کو دوسری بار نواز شریف کی حکومت کے خلاف استعمال کیا تو سپریم کورٹ نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا اور نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی۔ شجاع نواز لکھتے ہیں کہ اس عدالتی فیصلے کے بعد نواز شریف نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت گرانے کے لیے رینجرز کا سہارا لینے کی کوشش کی تو آرمی چیف جنرل عبدالوحید نے اس کا راستہ روک دیا۔
شجاع نواز کے مطابق جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ملک میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کو قائل کیا کہ وہ دونوں مستعفی ہو جائیں تاکہ نئے انتخابات کروائے جا سکیں جن کے نتیجے میں بیننظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم ہوئی۔ بینظیر بھٹو نے جنرل وحید کاکڑ کے بارے میں کہا کہ ان کو سیاست میں گھسیٹنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کبھی کوئی مداخلت نہیں کی۔عبد الوحید کاکڑ غالبا واحد سپہ سالار تھے جن کو ایک وزیر اعظم نے مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔
وہ پہلے آرمی چیف تھے جنھوں نے تین سال کی مدت پوری ہونے پر یہ عہدہ چھوڑ دیا۔یہ 17 اگست کا 1988 دن تھا جب پاکستان کے وائس چیف آف سٹاف جنرل اسلم بیگ طیارے میں بیٹھے فضا سے ایک جائے حادثہ کا دورہ کر رہے تھے۔ اپنی سوانح حیات ’اقتدار کی مجبوریاں‘ میں اسلم بیگ لکھتے ہیں کہ ’سامنے دھواں نظر آ رہا تھا، اگلے ہی لمحے ہمارا طیارہ اس کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ وہاں ایک ہیلی کاپٹر بھی اُتر رہا تھا، ہیلی کاپٹر کے پائلٹ سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ ’پاکستان ون‘ (سی ون تھرٹی) کریش ہو گیا ہے اور کوئی نظر نہیں آ رہا۔ اس قسم کے حالات میں مجھے اہم فیصلہ کرنا تھا۔ اگر میں جائے حادثہ پر پہنچ بھی جاتا، تو کچھ کر نہیں سکتا تھا۔ اسی لیے میں نے پائلٹ کو کہا کہ سیدھے راولپنڈی چلو۔‘ یہ وہ مقام تھا جہاں کچھ دیر پہلے وہ سی ون تھرٹی طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا جس میں دیگر افراد کے ہمراہ صدر پاکستان جنرل ضیا الحق بھی سوار تھے۔ضیاالحق کی طیارہ حادثے میں ہلاکت کے بعد جنرل اسلم بیگ فوج کے سربراہ بن گئے
۔
جنرل ضیا کی ہلاکت اور اسلم بیگ کے آرمی چیف بننے کے تین گھنٹوں کے اندر آئین بحال ہو چکا تھا، انتقال اقتدار کی کاروائی کا آغاز ہوا جسے 90 دنوں میں مکمل ہونا تھا۔ اگرچہ جنرل اسلم بیگ پر مارشل لا لگانے کا دباؤ تھا لیکن انھوں نے وعدے کے مطابق انتخابات کروائے لیکن انھی انتخابات کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے مخالف متنازع سیاسی محاذ آئی جے آئی کی تشکیل اور اس کے نتیجے میں نواز شریف کے برسراقتدار آنے پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔
1999 کے اواخر میں 12 اکتوبر کو، نواز شریف نے ایک دن اچانک اس وقت کے آئی ایس آئی چیف لیفٹینینٹ جنرل ضیا الدین کو وزیر اعظم ہاؤس بلا کر بتایا کہ ان کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ان کو نواز شریف نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کی مرضی کے خلاف آئی ایس آئی چیف بنوایا تھا اور یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ نواز شریف سے کافی قریب ہیں۔تاہم خود جنرل ضیا الدین کے مطابق ان کی نواز شریف سے پہلی ملاقات اسی وقت ہوئی تھی جب ان کا آئی ایس آئی چیف بنتے وقت انٹرویو ہوا
۔ان کے دعوے اپنی جگہ لیکن بارہ اکتوبر کے دن ان کی اس طرح اچانک تعیناتی پر فوج کے ردعمل نے جمہوریت کی بساط کو ہی لپیٹ کر رکھ دیا۔ ایک جانب وزیر اعظم ہاؤس میں جنرل ضیا الدین کو وزیر اعظم کے ملٹری سیکریٹری کے یونیفارم سے بیج اتروا کر لگائے گئے تو ادھر اس وقت کے آرمی چیف کے قریبی جنرل حرکت میں آ گئے جو خود اس وقت سری لنکا سے واپس پاکستان آ رہے تھے۔ جنرل مشرف سے پہلے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت بھی نواز شریف سے اختلاف کے بعد وقت سے کچھ عرصہ قبل مستعفی ہو چکے تھے۔