سابق وزیر داخلہ جنرل (ر) نصیر اللہ بابر نے رؤف کلاسرا کو کیا بتایا تھا ؟
آرٹیکلز
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔بریگیڈیئر میاں محمود کی آٹو بائیوگرافیMy Reflections in Passion خریدی تو آنکھیں کچھ نم ہو گئیں۔ کتاب کو ہاتھوں میں لیا تو ایک عجیب سی سنسنی محسوس کی۔ایک لمحے میں وہ برسوں کے لمحے گزر گئے جب بریگیڈیئر محمود کے ساتھ
ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہاں روزانہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ میری آخری دفعہ ان سے ملاقات چھ سال پہلے ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہوئی تھی۔ دسمبر 2015 میں ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد بریگیڈیئر صاحب سے کبھی ملاقات نہ ہوئی اور اب پتا چلا کہ ان کی کتاب چھپی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی وفات کے بعد بڑا عرصہ تو میں نے دوپہر کو گھر سے نکلنا ہی بند کردیا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک اور دوست ڈاکٹر شیر افگن کی وفات ہوئی تھی۔ ان کی موت کا دکھ ابھی تازہ تھا کہ ڈاکٹر ظفر الطاف چل بسے۔ مجھ اداسی اور ڈپریشن میں دیکھ کر ایک دن میری بیوی بولی: اب کیا کریں تمہاری دوستیاں ہم عمروں سے زیادہ‘ بڑی عمر کے لوگوں سے ہیں۔ پھر یہ دکھ‘ صدمے تو ہوں گے۔بریگیڈیئر میاں محمد محمود نے برسوں پہلے ڈاکٹر ظفر الطاف کی لنچ ٹیبل پر بیٹھے کہا تھا کہ وہ کتاب لکھ رہے ہیں‘ جس میں وہ 1965 کی لڑائی کی پوری کہانی لکھیں گے اور کچھ نہیں چھپائیں گے۔ انہوں نے وہ لڑائی رن آف کچھ میں لڑی جہاں ان کے کمانڈر میجر جنرل ٹکا خان تھے۔ پھر چھمب گئے تو وہاں جنرل اختر علی خان کمانڈر تھے۔ ستمبر میں ان کے کمانڈر جنرل یحییٰ خان تھے۔میں بریگیڈیئر صاحب کی عمر دیکھتے ہوئے کچھ حیران ہوا تھا کہ واقعی وہ یہ کام کر لیں گے۔ وہ اکثر جرنیلوں کی باتیں کرتے رہتے اور واقعات سناتے تھے۔ وہ ڈاکٹر ظفر الطاف کے بہت قریب تھے۔ تقریباً روزانہ میری طرح وہاں موجود ہوتے اور پھر کمال محفل جمتی۔ بریگیڈیئر محمود سے بہت سی چیزیں سیکھیں۔
سب سے مثبت چیز ان کی شخصیت میں یہ تھی کہ وہ اپنے نقطہ نظر کے خلاف بات بڑے صبر اور تسلی سے سنتے۔ میں ان کے بچوں کی عمر کا ہوں لیکن وہ میری بہت سی ایسی باتیں ہنس کے سن لیتے جو کسی کو بھی غصہ دلا سکتی تھیں۔ ان کی قیمتی گھڑیPathek Philips پر اکثر مذاق ہوتے جسے وہ انجوائے کرتے۔ پھر میں انہیں تنگ کرتا کہ انہوں نے 1971 کی لڑائی سے پہلے آرمی چھوڑ دی تاکہ لڑائی نہ لڑنا پڑے۔ میرے ان جملوں پر وہ بڑے قہقہے لگاتے۔ان میں ایک اور بڑی خوبی یہ تھی وہ اپنا نقطہ نظر بدلنے کو تیار ہو جاتے تھے اگر انہیں کوئی نئی بات بتائی جاتی۔ وہ بھی اکثر میڈیا پر جگتیں لگاتے تاکہ مجھے چھیڑ سکیں۔ ڈاکٹر ظفر میری اور بریگیڈیئر صاحب کی اس نوک جھونک سے لطف اندوز ہوتے۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اور ایم این اے نواب یوسف تالپور بھی شریک ہو جاتے تو محفل کا مزہ ہی کچھ اور ہو جاتا۔ پھر بحث ڈاکٹر ظفر الطاف، بریگیڈیئر محمود اور نواب یوسف تالپور کے درمیان ہوتی اور میں ایک طالب علم کی طرح چپ چاپ سنتا۔ کبھی ڈاکٹر صاحب اور بریگیڈیئرصاحب کے سینگ اڑ جاتے تو میں اور نواب یوسف انجوائے کرتے۔ بہرحال بہت سنجیدہ بحث بھی ہوتی، قہقہے‘ جگتیں اور لطیفے بھی چلتے۔ ان کی سب بڑی کوالٹی یہ تھی کہ وہ اپنی عمر کا ایڈوانٹیج نہ لیتے‘ سب کو دوست سمجھتے اور برابر ٹریٹ کرتے۔بریگیڈیئر محمود کی جنرل نصیراللہ بابر سے بہت دوستی تھی۔ میں مذاقاً کہتا: کہاں آپ کی جنرل بابر سے دوستی ہو گی‘ آپ ایسے ہی چھوڑتے ہیں۔
اس پر وہ سنجیدہ ہو کر ایک دن مجھے اور ڈاکٹر ظفر الطاف کو پشاور لے گئے۔ جنرل نصیراللہ بابر نے ان کی بڑی مہمان نوازی کی۔ میں نے بریگیڈیئر صاحب کو کہا: سر جی مان گئے‘ میں تو سمجھتا تھا آپ ایسے ہی مجھے اور ڈاکٹر صاحب پر رعب ڈالتے تھے۔ سب نے قہقہہ لگایا۔ جنرل بابر کی بیگم صاحبہ نے ہمارے لیے سادہ لیکن بہترین کھانا بنایا ہوا تھا۔ ایک خوبصورت سادہ سا گھر لیکن بہت سارے نوادرات نظر آتے تھے۔ جنرل بابر کو کُھلا ڈُلا اور سادہ بندہ پایا۔ میں نے ان سے بینظیر بھٹو کے کیس پر پوچھا: آپ تعزیت کرنے نہیں گئے‘ تو وہ غصے سے بولے: جنہوں نے اسے زندگی سے محروم کروایا میں ان سے تعزیت کرنے جاتا؟ بولے: اکیلا گڑھی خدا بخش گیا تھا اور بی بی کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس آ گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے ایک اہم وزیر‘ جو بینظیر بھٹو کے بہت قریب تھے‘ کے بارے میں کہنے لگے کہ اسے میں نے ڈانٹا تھا کہ تم اسے کیوں زندگی سے محروم کروانے کے لیے پاکستان لے آئے ہو؟ کہنے لگے: جب وارننگ سامنے آئی تھی تو میں نے بیت اللہ محسود کو پیغام بھیجا تھا کہ بی بی کو کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ بقول جنرل بابر‘ اس نے قسم کھائی تھی کہ محسود نے کوئی وارننگ نہیں دی‘ بلکہ جب سانحہ ہو گیا تب بھی بقول جنرل بابر بیت اللہ محسود نے یہی پیغام بھیجا تھا کہ اس کا اس میں کوئی رول نہیں تھا۔ اگرچہ بیت اللہ محسود کے بارے کہا جارہا تھا کہ اس نے سارا پلان بنایا‘ لیکن جنرل بابر کا خیال تھا کہ مجرم پارٹی کے اندر موجود تھے۔
مجھے یاد ہے میں نے جنرل بابر کا انٹرویو اگلے روز شائع کیا تھا تو رولا پڑ گیا تھا۔ خیر بریگیڈیئر محمود کی کتاب نے اب میرے چودہ طبق روشن کر دیے ہیں۔ اس عمر میں جتنی محنت اور تفصیل سے انہوں نے کتاب لکھی‘ اس پر انہیں بے پناہ داد دینے کو دل چاہ رہا ہے۔ انہوں نے پہلے پوری کتاب لکھی‘ پھر اپنے 1965 کی لڑائی کے سب فوجی ساتھیوں کو گھر اکٹھا کرکے مسودہ دکھایا۔ صاحبزداہ یعقوب علی خان کو بھی مسودہ بھیجا کہ کوئی غلطی تو نہیں۔ انہوں نے بھی تعریف کی۔بریگیڈیئر محمود لکھتے ہیں: آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ گولف کھیلتے تھے۔1976 میں گولف کھیلتے ان کی ملاقات امریکی ایمبیسی کے ڈیفنس اتاشی کرنل ڈونلڈ سے ہوئی جو جلد اچھے تعلق میں بدل گئی۔ کرنل ڈونلڈ امریکن آرمی سے ریٹائرڈ تھا‘ لیکن وہ چند دنوں کیلئے کہیں غائب ہو جاتا تھا۔ جب وہ گولف کورس واپس لوٹتا تو بریگیڈیئر محمود اس سے پوچھتے کہ کرنل کہاں غائب تھے؟ وہ انہیں بتاتا کہ وہ چند دن کیلئے ملتان گیا تھا۔ ملتان کا حال احوال سناتے ہوئے وہ یہ بھی بتانا نہ بھولتا کہ اس کی ملتان کے کور کمانڈر جنرل ضیاالحق سے بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں بلکہ جنرل ضیا کے ساتھ اپنے تعلقات کی گہری نوعیت بتانے کیلئے یہ بھی بتاتا تھا کہ وہ وہاں ملتان میں جنرل ضیا کے ساتھ ٹینس بھی کھیلتا ہے۔ بریگیڈیئر محمود نے اپنی آرمی سروس میں جنرل ضیا کا نام نہ سنا تھا اور نہ ہی جانتے تھے۔انہی دنوں آرمی چیف جنرل ٹکا خان کی ریٹائرمنٹ قریب تھی۔ ایک دن بریگیڈیئر محمود جنرل سعید قادر سے ملنے گئے جو کواٹر ماسٹر جنرل تھے۔ وہاں انہوں نے وردی میں ایک لیفٹیننٹ جنرل کو دیکھا۔ بریگیڈیئر محمود اس لیفٹیننٹ جنرل کو نہیں جانتے تھے لہٰذا ان سے کوئی بات نہیں کی۔ جنرل سعید قادر نے بھانپ لیا اور بولا: لگتا ہے آپ ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔ بریگیڈیئر محمود نے نفی میں سر ہلایا جبکہ اس لیفٹیننٹ جنرل نے بریگیڈیئر محمود کا نام سنا تو بولا: میں نے ان کا نام سنا ہے۔ اس پر بریگیڈیئر محمود حیران ہوئے تو جنرل سعید قادر نے کہا: یہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاالحق ہیں۔ جنرل ضیا کا نام سن کر بریگیڈیئر محمود نے ایک لمحے کے لیے سوچا یہ نام کہاں پہلے سنا تھا۔ اچانک ان کے ذہن میں امریکن کرنل ڈونلڈ کا نام ابھرا۔