اوریا مقبول جان نے قوم کو تصویر کا اصل رخ دکھا دیا
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ ۔آج سے صرف دو سو سال قبل تک دُنیا کی کوئی تہذیب، ثقافت اور معاشرت، شرم و حیاء اور اخلاقی اُصول و ضوابط سے خالی نہیں تھی۔ قدیم ترین بائیبل، مصر، چین، سندھ اور یونان کی تہذیبی داستانیں اُٹھا لیں،
آپ کو طرزِ معاشرت میں ایک حجاب اور اخلاقی رویوں میں شرم و حیاء کے عناصر ضرور ملیں گے۔ تاریخ کا ایک اور تلخ سچ بھی ہے کہ جیسے ہی ان تمام معاشروں نے شرم و حیاء کا دامن چھوڑا اور بے راہ روی و اخلاق باختگی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، تو پھر بدترین زوال ان کا مقدر ہو گیا۔ قریب ترین تہذیبوں میں روم اور یونان کی ثقافتیں اپنے علم و عرفان اور تہذیب و تمدن کے حوالے سے پہچانی جاتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی ان دونوں معاشروں نے تلذذ پرستی اور نفسی حیوانیت کو اپنا شعار بنایا،یہ دونوں تہذیبیں ایسے زوال کا شکار ہوئیں کہ آج وہ صرف آثارِ قدیمہ تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ آپ صرف ان کے محلات کے کھنڈرات کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ تاریخ کی یہ گواہی بڑی المناک ہے جس پر مہرِ تصدیق آج کا دَور ثبت کر رہا ہے کہ اپنے زمانے کی عالمی طاقت روم جو آج کا اٹلی ہے، یورپی یونین کے دستِ نگر ملک کی حد تک محدود ہو چکا ہے اور سقراط، افلاطون اور ارسطو کا یونان اب ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے روز یہ خبریں گردش کرتی ہیں کہ معاشی طور پر آج ڈوبا یا کل۔ جدید مغربی تہذیب جس نے یورپ اور امریکہ کی سرزمین پر جنم لیا اور جس نے اپنی وسعت میں آسٹریلیا،نیوزی لینڈ اور کینیڈا کو بھی شامل کر لیا وہ یوں تو انسانی آزادی (Civil Liberties) کے بنیادی نعرے کی کوکھ سے پیدا ہوئی، مگر قدیم بادشاہوں اور صدیوں سے مسلّط ’’چرچ‘‘ کا ’’کلاوا‘‘ جب اس نے اُتار پھینکا
تو تہذیبی چکا چوند کیلئے اس نے صرف اور صرف عورت کو ’’مرکزِ نگاہ‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔یہ وہ مہذب لوگ تھے جو ابھی تک افریقہ سے غلاموں کی تجارت کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے زیرِ نگیں علاقوں میں وحشت اور درندگی جیسے قوانین نافذ کر رکھے تھے۔ جب ان ممالک میں آزادی و حریت کے نام پر تحریکیں چلیں تو انہیں صرف گھروں میں بیٹھی ہوئی عورت ہی سب سے مظلوم، بے کس و بے نوا نظر آئی۔ عورت کے بارے میں یہ تصور عام کیا گیا کہ گھر کی چاردیواری میں بدترین غلامی کا شکار یہی عورت ہے جسے بغاوت کر کے باہر نکلنا چاہئے۔1837ء میں ایک فرانسیسی خیال پرست (Utopian) فلاسفر چارلس فوریئر “Charles Fourier” نے اپنی تحریروں میں ’’نظریہ حقوقِ نسواں‘‘ “Feminism” کا لفظ استعمال کیا اور عورت کو مَرد کے برابر کھڑے ہو کر غلامی کی زنجیریں توڑنے کیلئے ترغیب دلائی۔موجودہ نیدر لینڈ جو اس وقت ایک بڑی نوآبادیاتی طاقت تھا، وہاں 1872ء میں، برطانیہ میں 1890ء اور امریکہ میں 1910ء میں اس تصور کی بازگشت گونجی۔اس کے بعد ’’تحریکِ حقوقِ نسواں‘‘ علمی اور سیاسی طور پر چلنا شروع ہوئی جس کے تحت مغرب کی خواتین اپنے لئے سیاسی، معاشی اور معاشرتی حقوق کے پُرفریب نعرے کی گونج میں اس تحریک کا شعوری یا لاشعوری طور پر حصہ بنتی چلی گئیں۔ لیکن عملی طور پر اس آزادی نسواں کا اظہار صرف اور صرف مخصوص آزادی اور جسمانی نمائش سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اور آج بھی انہی دو آزادیوں کے گرد گھومتا ہے۔ 1920ء میں فلوریڈا کے ساحلوں پر جو ’’مقابلۂ حسن‘‘ منعقد ہوا، اس نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک ’’عالمی مقابلۂ حسن‘‘ کی شکل اختیار کر لی
اور پھر دُنیا بھر کی فیشن انڈسٹری اس کے گرد گھومنے لگی۔ مَرد کی غلامی سے نجات ایک ایسا نعرہ تھا جس نے خاندانی زندگی کی جڑیں کھوکھلی کر کے رکھ دیں۔بڑے بڑے مفکرین نے ’’پدرسری‘‘ نظام کے خلاف کھڑے ہونے کو کہا۔ دُنیا بھر کو ایک ایسا معاشرہ بتایا گیا جس کی معیشت، سیاست اور معاشرت پر مَرد کا قبضہ ہے، مغرب کی عورت کو یہ بھی بتایا گیا کہ تمام وسائل پر صرف مَرد کا قبضہ ہے اور عورت ایک غلام کی حیثیت میں زندگی گزارتی ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ مَرد معاشرے میں اتنا ہی پِسا ہوا تھا جتنا کوئی تصور کر سکتا ہے۔ آج بھی دُنیا بھر کے قید خانوں میں نوے فیصد سے زیادہ مَرد قیدی ہیں، سڑکوں پر بے گھر سونے والوں میں واضح اکثریت مَردوں کی ہے۔ دُنیا کے تمام ممالک میں جہاں سنگین جرائم ہوتے ہیں، ان میں بیشتر کا نشانہ مَرد بنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ دُنیا میں موت کو سینے سے لگانے والوں میں سے اسی فیصد مَرد ہوتے ہیںلڑائیوں میں زندگی سے محروم ہونے والوں میں زیادہ تر مَرد ہوتے ہیں۔ یہ تو ان کے عمومی حالات ہیں جن کا اثر یہ پڑ رہا ہے کہ اس وقت تعلیمی میدان میں سب سے ناکارہ مَرد ثابت ہو رہے ہیں۔ کیا یہ جاتا ہے کہ چند کامیاب مَردوں کی کہانیاں اکٹھی کر کے دُنیا کی عورتوں کو یہ کہہ کر اُبھارا جاتا کہ مَرد ایک استحصالی طبقہ ہے۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ ان مَردوں کیخلاف ہے جن میں جبری مشقت کرنیوالوں اور خصوصاً افریقہ سے لائے گئے غلاموں میں نوے فیصد تعداد انہی مَردوں کی ہوتی تھی۔
صدیوں سے بدترین غلامی،زدوکوب ، بیگار یہاں تک گلیڈیٹر کی طرح پال پوس کر بھوکے شیروں کے سامنے ڈالے جانیوالے بھی مرد ہی ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ صرف عورت کو مظلوم ثابت کرنا مقصود تھا، اس لئے صرف اسی کے ظلم کی داستانیں مشہور کی گئیں۔ ’’تحریکِ حقوقِ نسواں‘‘ کا اصل رنگ و روپ وہ خاص آزادی و خودمختاری تھی جس نے عورت کو ’’شمع محفل‘‘ کے سٹیج پر لا بٹھایا۔ لیکن اس سے پہلے اسے یہ درس بھی دیا گیا کہ اخلاق، تہذیب، شرافت، حیائ، خاندانی زندگی، ممتا، بیٹی اور بہن کا رشتہ یہ سب غلامی کی زنجیریں جنہیں تم نے کاٹنا ہے۔ اگر ان میں سے کسی ایک زنجیر پر بھی تم نے سمجھوتہ کر لیا تو پھر باقی سب زنجیریں بھی تمہارے گلے کا طوق بن جائیں گی۔ یوں وہ تحریکِ حقوقِ نسواں جو عورت کو کاروباری طور پر استعمال کرنے کے خلاف تھی، اسی کی کوکھ سے جس ’’ماڈل گرل‘‘ نے جنم لیا اس کا ہر روپ ہی کاروبار تھا۔ مغرب نے جس نفسی آزادی و خود مختاری کو حاصل کر کے اپنی اخلاقی زندگی برباد کی اس کا تصور پاکستان کی حقوقِ نسواں تحریک میں مشرف دَور سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ لیکن مشرف اور اس کے دَور کی این جی او زادیاں اس قدر یورپ زدہ ہیں کہ گزشتہ سالوں کے عورت مارچ میں عورتوں کے ہاتھ میں ایسے بینر تھمائے گئے جن کا حقوق سے دُور دُور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا، بلکہ یہ صرف نفسانی آزادی اور اخلاق باختگی کو اپنا حق تصور کرنے کے نعرے لئے ہوئے تھے۔ اس عورت مارچ کی مدح میں پاکستان کا سارا سیکولر میڈیا اکٹھا ہو گیا اور یہ تصور عام کر دیا گیا کہ عورت جو چاہے کرے اس پر سوال کرنے کی کسی کو جرأت نہیں ہونا چاہئے۔ یہ تھی وہ آزادی اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کا تصور کہ جس کی کوکھ سے عائشہ نے جنم لیا جو مینارِ پاکستان پر ایک ایسا ڈرامہ رچاتی ہے کہ جس سے یہ ثابت کیا جا سکے، یہ مَردوں کا معاشرہ اب انتہائی ذلیل اور گھٹیا ہو چکا ہے اور یہاں بحیثیت مجموعی عورت کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ مقصد پورا ہوا۔ پاکستان بدنام ہوا۔ عائشہ دراصل ایک جیتا جاگتا کردار نہیں ہے بلکہ وہ ان ’’پلے کارڈوں‘‘ میں سے ایک پلے کارڈ ہے جو عورت مارچ میں اٹھائے گئے تھے اور یہ ایسے تمام پلے کارڈ حقوقِ نسواں نہیں بلکہ اخلاق باختگی کی علامت ہیں۔