in

ہیڈکوراٹرز کو نظر انداز کرکے سیاستدانوں کے پیج پر چلے جانے والے فوجی افسران کو اپنی برادری میں کیا کہا اور سمجھا جاتا ہے ؟

ہیڈکوراٹرز کو نظر انداز کرکے سیاستدانوں کے پیج پر چلے جانے والے فوجی افسران کو اپنی برادری میں کیا کہا اور سمجھا جاتا ہے ؟

لاہور (ویب ڈیسک) نامور صحافی عمر فاروق بی بی سی کے لیے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔ 22 برس قبل اسی مہینے میں فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ اس روز اس وقت کے سول اور فوجی سربراہ

کے درمیان اختلافات اپنے منطقی انجام کو پہنچے تھے جن کا آغاز اس نکتہ انجام سے ٹھیک ایک برس قبل پاکستان کی سب سے طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کی تقرری سے ہوا تھا۔12 اکتوبر 1999 کا دن اس لیے بھی پاکستان کی فوجی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم دن بنا کہ اس روز ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک حاضر سروس آئی ایس آئی چیف کو گرفتار کیا گیا۔لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین بٹ کو 12 اکتوبر 1999 کو ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر گرفتار کرنے والے افسر کا نام کرنل شاہد علی تھا جو اس وقت آرمی کی لیجنڈری ’ٹرپل ون‘ (111) بریگیڈ کے بٹالین کمانڈر تھے۔جنرل مشرف کی کتاب ’اِن دا لائن آف فائر‘ (سب سے پہلے پاکستان) کے مطابق کرنل شاہد علی وہ شخص تھے جنھوں نے 12 اکتوبر 1999 کی شام کو فوجی بغاوت کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے اپنے دستوں کے ہمراہ وزیراعظم ہاﺅسکاکنٹرولسنبھاللیاتھا،وزیراعظمنوازشریفاورانکے ہمراہ اس شخص کو گرفتار کر لیا تھا جو حاضر سروس ڈی جی آئی ایس آئی تھے اور جنھیں نوازشریف نے آرمی چیف تعینات کیا تھا۔فوجی بغاوت سے قبل لیفٹیننٹ جنرل (ر) ضیاالدین بٹ نے ایک سال تک ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر فرائض سرانجام دیے تھے۔ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تعیناتی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین فوجی حلقوں میں ایک ایسے جنرل کے طورپر مشہور ہو گئے تھے جن کا نوازشریف سے خون کا رشتہ ہے۔ جنرل مشرف جی ایچ کیو میں اُنھیں چیف آف جنرل سٹاف (سی جی ایس) لگانا چاہتے تھے۔

تاہم کرنل شاہد علی نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ بعدازاں ان کی حفاظت پر مامور ایس ایس جی (سپیشل سروسز گروپ) کمانڈوز نے اپنے ہتھیار ڈال دیے جس کے بعد ان سے ’سرنڈر‘ کرایا گیا۔جنرل مشرف بطور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیاالدین پر اعتماد نہیں کرتے تھےماضی میں آرمی قیادت نے آئی ایس آئی میں کام کرنے والے وزیراعظم کے منظور نظر افراد کو کیسے سائیڈ لائن کیا، اس کے بارے میں انکشافات آئی ایس آئی کی تاریخ لکھنے والے ڈاکٹر ہین کیسلنگ نے بیان کیے ہیں جن کا تعلق جرمنی سے ہے اور جو سیاسی تجزیہ نگار اور تاریخ دان ہیں۔ڈاکٹر کیسلنگ 1989 سے 2002 تک پاکستان میں رہائش پذیر رہے اور اس عرصے کے دوران انھوں نے پاکستان کے سیاسی، فوجی اور انٹیلیجنس حلقوں میں قریبی و گہرے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ ’دی آئی ایس آئی آف پاکستان: فیتھ یونٹی اینڈ ڈسپلن‘ کے عنوان سے ان کی کتاب سنہ 2016 میں شائع ہوئی۔ڈاکٹر کیسلنگ نے اپنے کتاب میں انکشاف کیا کہ لیفٹیننٹ جنرل ضیاالدین وزیراعظم نوازشریف کے نہایت قریب آ گئے تھے اور نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک دوروں میں بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہوتے تھے۔ جی ایچ کیو کو اس پر شک ہو گیا اور اس نے جنرل ضیاالدین کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔آرمی نے بطور ادارہ جنرل ضیاالدین بٹ کے بارے میں تین انکوائریاں (تحقیقات) کرائیں مگر بعدازاں انھیں ان الزامات سے بری کر دیا گیا کہ وہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرنے کی وزیراعظم کی منصوبہ بندی یا ’سازش‘ کا حصہ تھے۔

1999 میں فوجی بغاوت کے فوری بعد جنرل مشرف نے عنان اقتدار بطور چیف ایگزیکٹیو سنبھال لی اور اکتوبر کی بغاوت سے پہلے آرمی چیف اور وزیراعظم کے درمیان تعلقات کی خرابی میں انٹیلیجنس چیفس کے کردار کی تحقیقات کا حکم دیا۔یہ تحقیقات ایک لیفٹیننٹ جنرل نے کی تھیں جو فوجی حکومت کے ابتدائی برسوں میں مشرف کے سیکریٹریٹ کا حصہ رہے۔ اس تحقیقات سے پتہ چلا کہ ڈی جی آئی ایس آئی اور انٹیلیجنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر دونوں ہی وزیراعظم اور آرمی چیف کے تعلقات کی خرابی کے ذمہ دار تھے۔ یہ دونوں ادارے مل کر ملک کی ایگزیکٹیو اتھارٹی (انتظامی اختیار) تشکیل دیتے ہیں۔اس بات کا انکشاف اس نمائندے سے انکوائری کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل نے کیا تھا جو جنرل مشرف کے انتہائی بااعتماد تھے۔ وزیراعظم نوازشریف نے جس دن سے ضیاالدین بٹ کو ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا تھا، اسی دن سے وہ مشرف کی نگاہوں میں مشکوک ہو گئے تھے۔ اپنی کتاب میں انھوں نے ذکر کیا کہ مسز ضیاالدین آرمی کے عوامی اجتماعات میں اپنے خاندان کے بارے میں کیسے مشکوک انداز میں گفتگو کرتی تھیں۔سابق صدر جنرل ضیا کے بعد کے دور میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی آرمی چیفس اور اس وقت کے وزرائے اعظم کے درمیان وجہ تنازع بنتی رہی ہے۔اس مسئلے کی بنیاد کسی قانون کا نہ ہونا ہے جو ذمہ داری کا تعین کرے کہ یہ تقرری وزیراعظم نے کرنی ہے یا پھر آرمی چیف نے۔ عام طریقہ کار کے مطابق وزیراعظم ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تقرر کرتے آ رہے ہیں۔ لیکن چیف آف آرمی سٹاف (بری فوج کے سربراہ) کا کردار ڈی جی آئی ایس آئی کو چننے میں قطعاً معمولی نہیں ہے

کیونکہ آرمی افسران بالآخر آرمی چیف کی کمان میں کام کرتے ہیں۔یہ امر باعث حیرانی نہیں کہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا کہ سبکدوش ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی جگہ کون آ رہا ہے۔ آئی ایس پی آر نے لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کی بطور نئے ڈی جی آئی ایس آئی تعیناتی کا اعلان کیا ہے تاہم اس خبر کو تحریر کرنے تک ابھی اس تقرری کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔وزیراعظم عمران خان سے منسوب یہ بات اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں عام سنی جا رہی ہے کہ وہ سبکدوش ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ کام کرنے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے تھے اور وہ چاہتے ہیں کہ فیض حمید ہی اس عہدے پر کام جاری رکھیں۔فوج کے اندر معمول کے تقرر اور تبادلوں کے اعلان کے تحت ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ طریقہ کار میں معمولی تبدیلی آئی ہے۔آئی ایس پی آر کے جاری کردہ پریس ریلیز (سرکاری بیان) میں ڈی جی آئی ایس آئی کا تقرر کرنے والی ‘اتھارٹی’ (مجاز حکام) کے نام کا ذکر نہیں کیا گیا۔ باالفاظ دیگر پریس ریلیز میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ کس نے ڈی جی آئی ایس آئی کو تعینات کیا ہے۔ دونوں میں سے کسی طرف سے اس تنازع پر سرکاری بیان میسر نہیں یا یوں کہیے کہ سرکاری سطح پر کسی نے بھی باضابطہ اس پر موقف نہیں دیا۔مشق اور طریقہ کار یہ رہا ہے کہ وزیراعظم تین افسران کے ‘پینل’ (فہرست) میں سے ایک شخص کا ڈی جی آئی ایس آئی کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔ تین افسران کی یہ فہرست آرمی چیف وزیراعظم کو بھجواتے ہیں۔ اس تقرری کا نوٹیفیکیشن وزیراعظم سیکریٹریٹ سے جاری ہوتا ہے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

میں انتقال کر جاؤں تو میرے تمغے میری قبر پر سجا دینا کیونکہ ۔۔۔۔۔۔

بختاور بھٹو شادی کےصرف کتنے ماہ بعد ماں بن گئیں؟ ایسا کیسے ہوا۔۔۔حیران کن خبر آ گئی