جج صاحب : میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔۔۔!!!
اسلام آباد (ویب ڈیسک) اسلام آباد کی مقامی عدالت کے جج نے سابق سفارت کار شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے مقدمے میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت 11 ملزمان پر فرد جرم کل تک مؤخر کر دی ہے۔اس کیس کی آج ہونے والی سماعت کے دوران مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے جج سے بولنے کی اجازت
طلب کرتے ہوئے پوچھا کہ ’مجھے آگے کا بتا دیں، کیا ہو گا۔‘ظاہر جعفر نے یہ استدعا بھی کی کہ انھیں عدالت میں آزادانہ طور پر بولنے کی اجازت دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’میں 60 روز سے زیادہ عرصے سے قید میں ہوں۔۔۔ مجھے بتایا جائے عدالت کا اگلا پلان کیا ہے؟‘ایڈشنل سیشن جج عطا ربانی نے ملزم ظاہر جعفر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت کا پلان نہیں ہوتا بلکہ عدالتی کارروائی ہوتی ہے۔‘ظاہر جعفر نے عدالت کو بتایا کہ امریکی سفارت خانے نے انھیں وکیل فراہم کرنے کے لیے وکلا کی ایک فہرست دی تھی جو ابھی تک انھیں نہیں پہنچائی گئی۔ اس پر عدالت نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے وکیل کے ذریعے بات کریں اور اس حوالے سے جو بھی ہو گا وہ آپ کا وکیل بتائے گا۔واضح رہے کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو جسمانی ریمانڈ کے بعد پہلی مرتبہ کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس سے پہلے جب وہ جوڈیشل ریمانڈ پر تھے تو بخشی خانے سے ہی ان کی حاضری لگائی جاتی تھی۔ پولیس کا مؤقف تھا کہ حفاظتی ایشوز کی وجہ سے ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔عدالت کی طرف سے فرد جرم عائد کرنے کو موخر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ملزمان کے وکلا نے تین مختلف درخواستیں عدالت میں دائر کی ہیں جس میں ان کا مؤقف ہے کہ انھیں استغاثہ کی طرف سے اس مقدمے کے چالان سمیت دیگر دستاویزات فراہم نہیں کی گئیں۔ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ جو دستاویزات انھیں فراہم نہیں کی گئیں ان میں سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت ملزمان کے بیانات کی نقول بھی شامل ہیں۔ ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے فئیر ٹرائل کا حکم دیتا ہے۔
ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ انھیں اس مقدمے میں فرانزک رپورٹس بھی نہیں ملی ہیں اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملزمان سے کچھ چیزیں خفیہ رکھی جا رہی ہیں۔بدھ کے روز اس مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم کے مقدمے کی سماعت کی تو مرکزی ملزم ظاہر جعفر سمیت پانچ ملزمان کو سخت پہرے میں متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔دیگر ملزمان میں ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور ان کی والدہ عصمت آدم جی بھی شامل ہیں، اس کے علاوہ تھراپی سینٹر کے سربراہ طاہر ظہور سمیت چھ دیگر ملزمان بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ ملزمہ عصمت آدم جی کو علیحدہ سے کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔تھراپی سینٹر کے سربراہ سمیت چھ ملزمان اس وقت ضمانت پر ہیں۔عدالت نے جب ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کے لیے عدالتی کارروائی کا آغاز کیا تو عدالت کے جج عطا ربانی نے ذاکر جعفر سے استفسار کیا کہ ان کا وکیل کون ہے جس پر ذاکر جعفر نے جواب دیا کہ انھیں نہیں معلوم کہ ان کا وکیل کون ہے۔عدالت نے اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کمال ہے کہ آپ نے سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواستیں دائر کیں لیکن آپ کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آپ کا وکیل کون ہے؟ذاکر جعفر نے عدالت کو بتایا کہ انھیں وکیل کرنے کے لیے اجازت نامے پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔کمرہ عدالت میں موجود ایک وکیل نے عدالت کو اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ وہ رضوان عباسی کے جونئیر ہیں
اور رضوان عباسی ذاکر جعفر کے وکیل ہیں۔ عدالت نے ذاکر جعفر سے استفسار کیا کہ کیا رضوان عباسی آپ کے وکیل ہیں جس پر ذاکر جعفر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے بھائی نے ان کے لیے رضوان عباسی کو وکیل کیا ہو۔عدالت کے جج کا کہنا تھا کہ چلیں اگر وہ عدالت میں موجود نہیں ہیں تو پھر بھی ملزمان پر فرد جرم عائد کر دیتے ہیں تاہم وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے سینیئر کو آنے دیں، اس کے بعد بے شک ملزمان پر فرد جرم عائد کر دیں۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں نور مقدم مقدمے کا فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔دوسری جانب ملزمان ذاکر جعفر اور عمصت آدم جی نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ملزمان کے وکیل خواجہ حارث کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی اس درخواست میں یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کو یہ بھی ہدایت کی کہ دو ماہ میں اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے جبکہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 497 کے مطابق عدالت کے پاس کسی بھی ملزم کی ضمانت کی درخواست مسترد کرنے یا منظور کرنے کا اختیار تو ہے جبکہ ایسا اختیار نہیں ہے کہ وہ متعقلہ عدالت کو ڈائریکشن دیں کہ اتنی مدت میں اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے اور خاص طور پر ایسے حالات میں جب اس مقدمے کا نامکمل چالان عدالت میں پیش کیا گیا ہو۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق نے نور کے مقدمے میں ظاہر جعفر اور عصمت آدم جی کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت میں پیش کیے گئے ریکارڈ کے مطابق ان دونوں ملزمان کے علم میں تھا کہ ان کے بیٹے ظاہر جعفر نے نور مقدم کو زندگی سے محروم کیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے پولیس کو مطلع نہیں کیا۔