in

جاپانی اسکولوں کے وہ اصول جو ہمارے ملک میں بھی ہونے چاہئیں

جاپانی اسکولوں کے وہ اصول جو ہمارے ملک میں بھی ہونے چاہئیں

سر سبزو شاداب سرزمین، آسمان کو چھوتی عمارتیں، صاف ستھری سڑکیں، نکھرے لوگ، ہزاروں لوگوں کے مجمعے میں بھی خاموشی، تہذیب اور شائستگی کے ساتھ سرگوشی میں بات کرتے ہوئے لوگ، سڑکیں نت نئے پودوں اور جداگانہ مجسموں سے آراستہ و پیراستہ ماحول میں بکھری پھولوں اور پرفیومز کی ملی جلی مہک، سائیکلوں پر پھرتے لوگ، دنیا کا ایڈوانس ترین اور بہترین میٹرو سسٹم رکھنے والا یہ ملک “جاپان” ہے۔

کچھ عرصہ ٹوکیو میں رہنے کا موقع ملا بہت سی بہترین اور خوبصورت یادیں اس ملک سے جڑی ہوئی ہیں۔ سیاحت کا شوق ہونے کی وجہ سے کچھ اور ممالک کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو جاپان جیسی مکمل خصوصیات رکھنے والا کوئی دوسرا ملک نہیں دیکھا !!!!!

یہ قوم مضبوط مشرقی روایات کی حامل ہے، یہی سوچ اسے دنیا کی دوسری ماڈرن اقوام سے جدا کرتی ہے۔ یہاں کے نہ صرف بالغ لوگ بلکہ بچے بھی آپ کو با تہذیب ملیں گے۔ قدرتی اور انسانی مہارت دیکھنی ہو تو جاپان کا رخ کریں ایک منظم قوم جہاں ہر طرف آپکو سکھ اور چین نظر آئے گا۔ اس ملک کی مدح سرائی میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن یہاں جاپانی اسکولوں کے کچھ عجیب و غریب اصول بیان کئے جا رہے ہیں جو آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گے۔

٭جاپانی طلباء سائیکل چلاتے ہیں اسلئے انھیں اسکول کی طرف سے ناقابل تبدیل ہیلمیٹ ملتا ہے یہ ہیلمیٹ ان کو ایک دفعہ ملتا ہے جس کو طلباء آپس میں تبدیل بھی نہیں کر سکتے۔ ایک ہی ڈیزائن کے چمڑے کے اسکول بیگ ہوتے ہیں جو ان طلباء کو اسکول کی طرف سے ملتے ہیں اور انھوں نے وہ ہی بیگ اسکول لے کر جانا ہوتا ہے۔

٭اپنے سامان کا طلباء خود خیال رکھتے ہیں اسکول کے کچھ اصول ہیں جن میں طلباء کو ترمیم کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسکول میں بالوں کا رنگ سیاہ ہونا ضروری ہے میک اپ کی اجازت نہیں ہے۔ مختلف بالوں کے اسٹائل کی اجازت نہیں ہے۔ یہ اصول تمام اسکولوں میں لاگو نہیں ہوتے ہیں۔ لیکن سرکاری اور زیادہ تر پرائیویٹ اسکول ان اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ وہاں کے سرکاری اسکولوں کا معیار بہت اچھا ہوتا ہے ۔جاپانی اسکول چوکیداروں کی خدمات حاصل نہیں کرتے ہیں طلباء خود چوکیدار ہوتے ہیں ۔

٭جاپانی اسکولوں کے طلباء اسکول کی صفائی کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پہلا پیریڈ صفائی کا ہوتا ہے جسے سوجی جیکان کہا جاتا ہے جس میں کلاس رومز، دالان اور باتھ رومز وغیرہ کی موپنگ شامل ہوتی ہے۔ ڈسٹنگ اور چاک بورڈز کو بھی صاف رکھنا طلباء کی ذمہ داری ہے۔ پورے اسکول کے طلباء اس کام کو بخوشی انجام دیتے ہیں۔ اس اصول کا مقصد بچوں کو اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈالنا ہے۔ اسکولوں میں لڑکے لڑکیوں دونوں کو سلائی کڑھائی اور کوکنگ سکھائی جاتی ہے۔

٭اسکولوں میں گھر کا کھانا منع ہے۔ جاپانی اسکولوں میں کیفے ٹیریا نہیں ہوتے۔ اسکول کا اپنا شیف ہوتا ہے۔ اسکول میں تیار کردہ صحت کے اصولوں کے مطابق تیار کردہ کھانا طلباء کو فراہم کیا جاتا ہے سب کو یکساں مقدار میں کھانا فراہم کیا جاتا ہے اور بچوں نے بغیر کسی نخرے کے اسکول سے فراہم کردہ کھانا کھانا ہوتا ہے۔ ویسے بچوں کے ذائقے کے مطابق پروفیشنل شیف کھانا تیار کرتے ہیں یعنی کھانے میں بھی یونیفارمیٹی ہے۔ کھانا فراہم کرنے کا مقصد امیر غریب کے فرق کو بچوں سے دور رکھا جائے اور تمام بچے یکساں طور پر توانائی سے بھر پور کھانا کھائیں جو ان کی صحت مندی کے لئے ضروری ہے۔ ہر دن کا الگ مینیو ہوتا ہے۔ کھانے میں سوپ، چاول، مچھلی سبزیاں، بینز، دودھ اور دہی وغیرہ ہوتا ہے، ڈیوٹی پر موجود بچے شیف کے ڈریس میں اپنے ساتھیوں کے لئے میزبانی کرتے ہوئے انھیں کھانا سرو کرتے ہیں۔ ہر بچہ باری باری یہ ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ کھانے کا ضیاع برداشت نہیں کیا جاتا ہے۔ اگر طلباء اپنا لنچ ختم نہیں کرتے تو انھیں سزا دی جاتی ہے۔

٭اسپورٹس ٹیمیں اور بچوں کے ہنر کے مطابق ان کی ٹیمیں جیسے سنگنگ، آرٹ وغیرہ تیار کی جاتی ہیں۔ یہ بچے پہلے شہری سطح پر پھر قومی سطح پر اس کے بعد انٹرنیشنل سطح پر اپنے ہنر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہر بچہ ہی کسی نہ کسی ٹیم کا حصہ ہوتا ہے اور اسکول ان کو بھر پور مواقع فراہم کرتا ہے۔

٭مڈل اسکولوں میں بالیاں اور ہار کو فیشن کی اشیاء سمجھا جاتا ہے جو ممنوع ہے۔ جاپانی والدین اسکول کے اصولوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔ وہ اساتذہ کے احترام میں ان سے اپنی نظریں سر جھکا کر بات کرتے ہیں۔ اگر کوئی طالب علم اسکول میں کوئی لڑائی جھگڑا کرے تو والدین اسمبلی میں آ کر اپنے بچے کی طرف سے معافی مانگتے ہیں یہی وجہ ہے بچے کچھ غلط کرنا نہیں چاہتے۔ اسکول کو صرف سیکھنے کی جگہ سمجھا جاتا ہے جہاں فیشن کی کوئی گنجائش نہیں۔

٭اسکولوں سے متصل فارم اگانے کے لئے زمین ہوتی ہے۔ جہاں بچے اپنی سبزیاں خود اگاتے ہیں ۔ اپنے پودے کو پانی دینا ان بچوں کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور جب ان کی یہ سبزی تیار ہو جاتی ہے تو ایک تقریب ہوتی ہے جس میں ماں باپ بچے اپنی اگائی ہوئی سبزی خود جمع کرتے ہیں۔ اس تقریب کی تصاویر بنائی جاتی ہیں۔

٭جاپانی اسکولوں میں ایک ہوم ٹیچر ہوتا ہے جو اپنی کلاس کا ذمہ دار ہوتا ہے، متبادل اساتذہ ممنوع ہیں۔ ہمارے یہاں ٹیچر بیمار ہو جائے تو متبادل ٹیچر کلاس سنبھال لیتا ہے جاپان میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ اگر ریگولر ٹیچر کلاس اٹینڈ کرنے کے قابل نہیں ہے تو طلباء اپنا مطالعہ خود کریں گے۔ اور اپنے استاد کے آنے کی دعا کریں گے۔

٭جاپانی بچوں کے لئے رات کا کرفیو ہوتا ہے شام چھ بجے وہ کھانا کھا کر اور باتھ لے کر سو جاتے ہیں رات دس بجے کے بعد اسکول کے بچوں کا پیدل چلنا برا سمجھا جاتا ہے کوئی بچہ سڑک پر نظر آئے تو لوگ ان کو بہت بری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ رات 10 بجے کے بعد بچوں کے لئے حکومت تعاون کرتی ہے۔ وہ چیک کرتی ہے کہ اس اصول پر عمل کیا جا رہا ہے کہ نہیں۔ وہ اس طرح کہ مووی تھیٹر اور دیگر تفریحی مقامات پر نوعمر بچوں کو داخلہ تو نہیں دیا جا رہا ہے۔

٭گرمیوں کی چھٹیوں میں طلباء کو فری سوئمنگ کلاسز دی جاتی ہیں اور تمام طلباء کے لئے یہ کلاسز اٹینڈ کرنا لازمی ہوتی ہیں۔ سال میں ایک دفعہ بچے اسکول کی طرف سے 3۔4 دن کی کیمپنگ پر جاتے ہیں ۔ یہ بھی لازمی سمجھا جاتا ہے نہ بھیجنے پر کوئی خاص وجہ اسکول کو فراہم کرنی پڑتی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے بچوں کے لئے سال میں دو دفعہ والدین کو ضمیمہ فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ بچے کی کیمپنگ وغیرہ کے خرچے برداشت کر سکیں اور چھٹیوں میں بچوں کو گھمانے پھرانے لے جا سکیں۔ کیونکہ جاپانی بچہ اپنے ملک کا سرمایہ ہوتا ہے جس کے لئے سہولیات کی فراہمی حکومت کا فرض سمجھا جاتا ہے بچوں سے بڑے لوگ ان کے قد کے لیول پر آکر بات کرتے ہیں چاہے اس کے لئے انھیں اپنے گھٹنوں پر بیٹھنا پڑے۔ اس کا مقصد سراسر بچے کو عزت دینا ہے۔

یہ تو صرف اسکول کے بچوں کے حوالے سے بیان کردہ خصوصیات ہیں ورنہ جاپانی قوم کی خصوصیات اتنی زیادہ ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ جو ایک دفعہ یہاں قدم رکھ لے تو وہ اس جنت نظیر ملک کو چھوڑنا نہیں چاہے گا۔ شاید ہی دنیا کا کوئی اور ملک جاپان کے جیسا ہو۔ ہر وقت زلزلوں کی زد میں رہنے والا یہ ملک اب تک بڑے بڑے تباہی کن زلزلوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا اتنی مہارت سے سامنا کر رہا ہے۔ دنیا کا کوئی اور ملک اس کے انتطامات کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اس قوم نے بڑی بڑی مصیبتیں جھیلیں ہیں یہ وہ واحد قوم ہے جس نے ایٹم بم کو جھیلا لیکن اس قوم کو ڈوب کر دوبارہ ابھرنا آتا ہے شاید اسی لئے اسے ابھرتے سورج کی سرزمین کہا گیا ہے!!!!

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

10کھانے جو گُردوں کی صفائی کر دیتے ہیں

مہنگائی کے عالم میں مزدور کیسے صبح سے شام کرتے ہیں کچھ تلخ حقائق