اگلے الیکشن میں کس بنیاد پر یہی لوگ پی ٹی آئی کی مخالفت کریں گے ؟
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد عامر خاکوانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔عمران خان کی سیاسی حمایت پر پچھتانے اور ان کی حکومت پر تنقید کے حوالے سے کالم لکھا تو اس پر فیس بک ریسپانس اور براہ راست ای میلز، ٹیکسٹ میسجز میں آنے والا ردعمل تین طرح کا تھا۔
پی ٹی آئی کے حامی حلقہ نے ڈھارس بندھانے کی کوشش کی ، ہمدردی کے دو بول، مشفقانہ انداز میںرائے پرنظرثانی کا مشورہ وغیرہ۔ان میں سے کچھ نے البتہ اپنی کمٹمنٹ ظاہر کرنے کے لئے اعلان کیا کہ ہم ابھی تک عمران خان کے ساتھ ہیں اور رہیں گے ۔البتہ اس حلقے میں سے بہت سوں نے فیس بک کمنٹس میں یہ سوال اٹھایا کہ اگر عمران خان نہیں تو اور کون ؟ان کا اشارہ تھا کہ تبدیلی کے حامی لوگوں کے پاس آپشن نہیں کہ بیشتر بڑی جماعتیں سٹیٹس کو کی علمبردار ہیں اور ان کی گھسی پٹی سیاست سے تنگ آ کر ہی تو یہ تحریک انصاف کی طرف آئے۔ چند ایک تونے تو باقاعدہ کہہ ڈالا کہ عمران خان شریفوں اور زرداریوں سے بہرحال بہتر ہے، اس لئے ہم اسے ہی دوبارہ ووٹ ڈالیں گے۔ میرے پاس آنے والے فیڈ بیک میں ایک حصہ ان کا تھا، جنہوں نے اس کالم کو سراہا اور ستائشی کلمات کہے۔ ان کا ردعمل’’ صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ‘‘ کے مصداق تھا۔ بعض نے یہ بتایا کہ وہ بھی حامی تھے، مگر بدترین گورننس کی وجہ سے دور ہوگئے ۔ ایک حلقہ البتہ ان لوگوں کا تھا جواینٹی عمران خان ہیں یا پرون لیگ ، چلیں اسے پرو PDMکہہ لیں کہ ان میں ن لیگی بھی ہیں، مولانا فضل الرحمن کے مقلد بھی۔ پچھلے تین چار برسوں میں خاکسار کی تحریروں کا ہدف پی ڈی ایم بھی رہا ہے( بھی پر زور دیا ہے)۔
اس لئے اس کے پرجوش کارکن اور حامی فطری طور پر برہم ہیں۔ انہوں نے فیس بک پر میرے کالم کو شیئر کیا اور اپنے مخصوص دوستوں کو مینشن بھی کر ڈالا ، مقصد شائد یہی ہوگا کہ آئو اور آ کر ایک عمران خان حامی کی باغیانہ تحریر پڑھو ۔ اس کے باوجود پنجابی محاورے کے مطابق ٹھنڈ نہیں پڑی تو انہوں نے طنز کے تیر چلانے ضروری سمجھے ۔ بعض نے اپنی فراست کے گیت گائے اور مطلع فرمایا کہ اس’’ نام نہاد کالم نگار‘‘ سے وہ زیادہ ہوشیار اور ذہین نکلے اور انہوں نے عمران خان کا بروقت درست اندازہ لگا کر اس کی مخالفت کی ۔چند ایک نے تعجب ظاہر کیا کہ’’ سیانا بیانا‘‘ بندہ ہو کر بھی اتنی دیر سے اندازہ لگایا۔دو چار کا ہلکے پھلکے طنز سے جی نہیں بھراتو انہوں نے باقاعدہ معافی نامہ کا مطالبہ کرڈالا۔ ایک دو نے تو پچھلے تین برسوں میں ہونے والی ہر حکومتی ناکامی اور خسارے کا بوجھ بھی اس کالم نگار پر لاد دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ملک تباہ ہو گیا تو اب غلطی کا صرف اعتراف کافی نہیں۔ ایسے کمنٹس پڑھ کر پہلی بار زندگی میں یہ محسوس ہوا کہ شائد حکومتیں کالموں کی وجہ سے بنتی ، بگڑتی ہیں اور ووٹر توپولنگ سٹیشن جانے سے پہلے ہمارے کالم سے فال نکالا کرتے ہیں۔خیر ان لوگوں کی تلملاہٹ قابل فہم ہے،آخر ہم ان کی پسندیدہ جماعتوں پر تنقید تو کرتے رہے ہیں، گاہے ایسے حامیوںپر فکری غلام ہونے کی پھبتی بھی کس دیتے ہیں۔ یہ امر البتہ
باعث مسرت ہے کہ ہمیں کورونا کا ذمہ دار نہیں ٹھیرایا گیا، کوئی ناہنجار یہ بھی کرگزرتا تو اس کا کیا بگاڑ لیتے۔ چند ایک ناقدین نے البتہ سنجیدگی سے یہ سوال کیا کہ عمران خان کی سیاسی حمایت کرنے کی وجوہات کیا تھیں، وہ کیا عوامل تھے ، جن کے باعث اسے سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا؟ یہ سوال چونکہ جینوئن ہے ، اس کا جواب مجھ پر فرض ہے۔اس لئے بھی کہ اس پورے پراسیس سے بہت سی چیزیں سیکھنے اور بعض تھیسس بدلنے Relearn کرنے کا موقعہ ملا۔ یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ عمران خان کے بیشتر ووٹر اور حامی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی طرز سیاست سے مایوس ہو کر آئے۔ پنجاب میں تو اینٹی نواز شریف ووٹروں کے لئے اور آپشن ہی نہیں بچی تھی۔ پاکستان پیپلزپارٹی ایک زمانے میں پنجاب کی اہم جماعت تھی، آصف زرداری صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کی سیاست کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کا پنجاب سے مکمل صفایا ہوگیا۔ ایسا خاتمہ کہ پرانے جیالے گھرانوں کی نئی نسل تک باغی ہوگئی ۔پنجاب میں اس خلا کو تحریک انصاف نے پر کیا ۔ کے پی میں بھی ایسا ہی ہوا، مگر وہاں پر جے یوآئی ف اور اے این پی خسارے میں گئیں۔ سیاسی اعتبار سے یہ بڑا دلچسپ معاملہ ہے کہ کوئی سیاسی جماعت اپنی تشکیل کے پندرہ سال بعد اچانک ابھر کر صف اول میں آ جائے۔ ایسا کم ہوتا ہے۔ عمران خان کے مخالفین اس کے ورلڈ کپ فاتح ہونے ، ہینڈسم ہیروامیج
ہونے کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ تاثر ملتا ہے کہ عمران خان کا ورلڈ کپ جیتنا یا اس کا فٹ اور ہیرو ہونا قوم کو مہنگا پڑا وغیرہ وغیرہ۔ یہ بے بنیاد باتیں ہیں۔ عمران خان نے 1992ء میں ورلڈ کپ جیتا۔ اس وقت وہ آج سے زیادہ ینگ ،(باقی صفحہ 5نمبر1) ہینڈسم اور خوش شکل ہیرو تھا۔ اگر اس وجہ سے ووٹ ملتے تو صرف پانچ سال بعد 1997ء الیکشن میںعمران کو بدترین شکست کیوں ہوتی؟ ایک بھی سیٹ نہ جیت سکا۔ اس شکست نے بتا دیا کہ ورلڈ کپ جیتنے اور ہینڈسم ہونے کا الیکشن میں کامیابی سے کوئی تعلق نہیں۔ پانچ سال بعد پھر یہی ہوا۔ تب میانوالی سے بمشکل اسے ایک سیٹ ملی، وہ بھی مقامی لوگوں نے شہر کا فرزند ہونے کے ناتے اس کا بھرم رکھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر 2010,11میں تحریک انصاف کو عوامی پزیرائی کیوں ملی؟ جواب یہ ہے کہ بڑی دونوں جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے غیر جمہوری رویوں، سیاسی نورا کشتی، ووٹروں کو بے وقوف بنانے کی عامیانہ کوششوں کے باعث ایسا ہوا۔ عوام کے ایک بڑے حصے نے دیکھا کہ نواز شریف اور آصف زرداری نے آپس میں کوئی معاہدہ سا کر رکھا ہے کہ ایک دوسرے کو پوری باری لینے دو،ٹف اپوزیشن نہ کرو اور الیکشن سے پہلے کچھ عرصہ مصنوعی تنقید کر کے ووٹرو ں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرو۔ ووٹر ممکن ہے زیادہ سمجھدار نہ ہو، مگر وہ اتنا بھولا بھی نہیں کہ یوں مذاق بنواتا رہے۔ سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں کا ایک بڑا حصہ تحریک انصاف کی طرف متوجہ ہوا کہ
عمران خان کا سیاسی موقف دو ٹوک اور واضح تھا۔ خان نے نیوز چینلز ٹاک شوز کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ وہ ہر شو میں بیٹھا اپنے لمبے لمبے ہاتھ ہلاتا، تند وتیز لہجے میں بڑی سیاسی جماعتوں پر تنقید کرتا، ان کی منافقت بے نقاب کرتا رہا۔ دونوں جماعتوں سے بیزار لوگوں کو اس نے ایک تیسرا راستہ دکھایا۔ مضبوط پرکشش شخصیت اور ایماندار ہونا پلس پوائنٹ تھا۔ ہر سیاستدان کے بارے میں کوئی بھی الزام لگایا جا سکتا تھا، عمران خان کی دیانت اور کریڈیبلٹی کے بارے میں جھوٹا الزام بھی کوئی نہیں لگاپایا۔ عمران خان کے علاوہ یہ اعزاز جماعت اسلامی کے قائدین کو حاصل رہا۔ سید منور حسن بھی تب ایسے ہی شخص تھے، مگر جماعت عوامی مقبولیت نہیں رکھتی تھی اور اپنے مخصوص صالحین والے کلچر کے باعث ماڈریٹ ، دنیا دار لوگوں سے دور تھی۔ عمران خان کا یہ معاملہ نہیں تھا۔ عمران خان کے ہیرو امیج ہونے کے فیکٹر کو بھی نظراندازنہیں کر سکتا۔میری نسل کے بہت سے لوگوں کا وہ بطور کرکٹر ہیرو رہا۔ لاشعور میں کہیں یہ نرم گوشہ بھی کارفرما ہوگا، مگر صرف یہی بات نہیں تھی۔ ہیرو تو وہ ستانوے، دو ہزار دومیں بھی تھا، تب کیوں لوگ متوجہ نہیں ہوئے؟ اس لئے کہ تب بے نظیر بھٹو جیسی مقبول لیڈر پیپلزپارٹی میں تھیں، میاں نواز شریف بھی تب زیادہ وسیع حلقہ رکھتے تھے۔ عمران خان کی کامیابی کی اصل وجہ اس کا اصلاحات کا ایجنڈا تھا۔ جدید سیاسی تاریخ (پچھلے تیس پینتیس برسوں)میں وہ پہلا لیڈر تھا جس نے سسٹم کو بدلنے
اور اصلاحات لانے کا جامع تصور پیش کیا۔ وہ میٹرو اور دیگر میگا پراجیکٹس کے بجائے سوشل ڈویلپمنٹس کی بات کرتا،لوگوں کی کیپیسٹی بلڈنگ کی بات کرتا۔لٹیروں کے احتساب کا مطالبہ کرتا۔ اس نے تعلیم، صحت کے شعبے میں بہتری لانے، پولیس میں انقلابی ریفارمز لانے کا وعدہ کیا۔ کے پی حکومت کے پانچ برسوں میں اس نے صوبے کی پولیس کو غیر سیاسی اور فعال بنا کر دکھا دیا۔ تاریخ میں پہلی بار صوبے میں میرٹ پرپولیس ٹرانسفر ، پوسٹنگ ہوئیں۔ گھوسٹ سکولز ختم ہوئے، دوردراز کے علاقوں میں ٹیچرز کی کارکردگی چیک کرنے ٹیمیں جاتیں ۔ ہسپتالوں میں وہ تب حقیقی ریفارمز نہ لا سکا، مگر لوگوں کو لگا کہ پہلی بار کسی نے میڈیکل کے شعبے میں منافع خور گروہوں کو توڑنے کی کوشش تو کی۔ سب سے بڑھ کر پانچ سالہ صوبائی حکومت کے باوجود کسی نے عمران خان پر بدعنوانی کا الزام نہیں لگایا۔ عمران خان نے پہلے پیپلزپارٹی پھر ن لیگی حکومت کی کسی مصلحت اندیشی کے بغیر ڈٹ کر اپوزیشن کی۔ یہ امر بھی اس کے حق میں گیا۔اصلاحات کی بات کرنے پر پڑھے لکھے طبقات پہلی بار سیاست میں فعال ہو کراس جانب متوجہ ہوئے۔ وہ لوگ جو ہمیشہ سیاست کو گند کہتے رہے، انہیں عمران خان نے ایک خواب دکھایا۔ تعبیر پانے کے لئے وہ زندگی میں پہلی بار سرگرم ہوئے۔ اوورسیز پاکستانی چونکہ سوشل ڈویلپمنٹ، غیر سیاسی پولیس ، انتظامیہ وغیرہ کے تصورات کو درست سمجھ سکتے ہیں، انہیں عملی شکل میں دیکھتے ہیں۔یہ لوگ زیادہ جوش جذبے کے ساتھ عمران خان کے حامی بنے۔