لیکچرار سے رکشہ چلانے والا بن گیا
عام طور پر ہر انسان کی زندگی کی کہانی دوسرے انسان سے جدا ہوتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی کہانی میں دوسرے انسان کے لیے کوئی نہ کوئی سبق پوشیدہ ہوتا ہے ایسی ہی کہانی ہیومن آف بمبئی کی توسط سے سوشل میڈیا کی زینت بنی جو کہ ہم آج آپ سے شئير کریں گے-
اس کہانی میں جس میں لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا اس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد ایک بس کنڈیکٹر تھے جب ان کے والد کا انتقال ہوا اس وقت ان کی عمر صرف 15 سال تھی۔ معاشی حالات ان کے والد کی زندگی میں بھی کچھ بہتر نہ تھے مگر ان کے انتقال کے بعد تو بدترین ہو گئے مگر ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے ان کی ماں نے لوگوں کے لیے کھانا بنانے کا کام شروع کر دیا جب کہ ان کی بہن نے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچنگ شروع کر دی-
گھر والوں کی مدد کے خیال سے انہوں نے خود بھی اسکول کے بعد اخبار بیچنے شروع کر دیے اور جو بھی کماتے اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتے- تعلیم کے حصول کے شوق کے سبب دن بھر کام کرنے کے بعد رات کے وقت جب کہ گھر کے سب لوگ سو جاتے وہ اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں اپنی پڑھائی کرتے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ بڑا آدمی بننے کے جنون نے ان کے اندر پڑھائی کے حصول کا جزبہ پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ پڑھائی کے لیے ہر طرح کے جتن کرنے کو تیار تھے-
وسائل کی کمی کے سبب انہوں نے تعلیم کے لیے سرکاری اداروں کا انتخاب کیا جہاں کی فیس بہت کم تھی لہٰذا ان کی تعلیم کا سفر غربت کے باوجود جاری رہا اور پہلے انہوں نے انہوں نے انٹر کیا پھر بی اے اور ایم اے کا بھی امتحان بھی پاس کیا- یہاں تک کہ ایم ایڈ کی ڈگری 29 سال کی عمر میں حاصل کر لی ایم اے کے بعد ان کی ماں نے ان کی شادی بھی کروا دی- مگر انہوں نے شادی کے بعد بھی تعلیم کے حصول کا سلسلہ ترک نہ کیا اور جب ایم ایڈ کے امتحان پاس کیا تو اس وقت تک وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے- وہ ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھتے تھے اس وجہ سے پانچ سال تک دن رات نوکری کی تلاش کے باوجود وہ کسی اچھی نوکری کے حصول میں ناکام رہے جس پر اپنی بڑی بہن کے مشورے پر انہوں نے بلا آخر بمبئی میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا-
بمبئی آنا ان کے لیے ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا اور آنے کے دوسرے ہی دن ان کو ایک یونی ورسٹی میں بطور لیکچرار ملازمت مل گئی- جہاں ان کی تنخواہ نو ہزار طے ہوئی ایک سال بعد ہی انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا-
ایک لیکچرار کے طور پر کام کرتے ہوئے انہوں نے اچھا وقت گزارا مگر بچت کرنے کے بجائے اپنے بچوں کو بہترین ترین تعلیم دی اور کوشش کی کہ وہ کمی جو ان کی تعلیم میں رہ گئی ان کے بچوں کو اس کا سامنا کرنا نہ پڑے-
پچیس سال کی نوکری کے بعد 58 سال کی عمر میں جب وہ ریٹائر ہوئے تو ان کا بنک بیلنس بہت بڑا نہ تھا مگر ان کو اطمینان تھا کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کر چکے ہیں- ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے واپس بنگلور آنے کا فیصلہ کر لیا ساری عمر اپنی خوداری کے سبب ان کو یہ مناسب نہیں لگا کہ وہ اب اپنے بچوں پر بوجھ بن جائیں- اس لیے انہوں نے دوبارہ سے نوکری کی کوشش شروع کر دی لیکن ایک بار پھر ان کی عمر کے سبب ان کو کوئی نوکری نہ مل سکی- اس وقت انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور وہ تھا ایک لیکچرار کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد بطور رکشہ ڈرائیور کام شروع کرنا تھا-
ان کا یہ ماننا تھا کہ یہ کام ان کو بہت دلچسپ لگا وہ دن بھر طرح طرح کے لوگوں سے ملتے اور اکثر لوگ یہ جاننے کے بعد کہ اتنے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود وہ رکشہ چلا رہے ہیں ان کے ساتھ بہت محبت کا سلوک کرتے ان کا رکشہ کرائے کا تھا- اس وجہ سے ان کو اس کا کرایہ بھی دینا پڑتا تھا مگر اس کے باوجود دن بھر میں ان کو800 روپے تک بچت ہو جاتی تھی جو ان کے لیے کافی تھا-
وقت کے ساتھ 66 سال کی عمر میں انہوں نے بنک سے لون لے کر اپنا رکشہ خرید لیا اب ان کو رکشہ چلاتے ہوئے 17 سال ہو چکے ہیں رکشہ چلا کر وہ اپنا اور اپنی بیوی کا گزارا اچھے طریقے سے کرتے ہیں-
ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے بچے اپنی اپنی جگہ پر سیٹل ہیں لیکن ان کو اس بات کی خوشی ہے کہ وہ کسی پر بوجھ نہیں ہیں- ان کی زندگی ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ یہ سوچتے ہیں کہ لیکچرار جیسے کام کے بعد رکشہ چلانا ایک چھوٹا کام ہوتا ہے اور ایسا کام نہیں کرنا چاہیے-
ان کا یہ ماننا ہے کہ کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ہے اور انسان کے لیے سب سے اہم چیز اس کی خوداری ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ بچوں پر بوجھ بننے کے بجائے وہ اب تک اپنے اخراجات خود پورے کرتے ہیں-