سینئر صحافی نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی شادی پر پیش آنے والا یادگار واقعہ شیئر کر ڈالا
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد حنیف بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔لندن کی ایک سرد اور حسین شام تھی۔ ایم کیو ایم کے الطاف بھائی کے ولیمے کی تقریب تھی اور کراچی سے آئے ہوئے عمر شریف کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ ان کے خوف سے پسینے چھوٹ رہے تھے
اور وہ میرا ہاتھ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔الطاف بھائی سے ذاتی تعلق کبھی نہیں رہا، کراچی میں تھے تو صحافت ان کی وارننگز کی زد میں رہتی تھی۔ ان کی پریس کانفرنس میں بھی سرجھکا کر بیٹھتے تھے کہ کہیں نظر میں نہ آ جائیں۔ افطار کی دعوت پر بہانہ کر دیتے تھے اور جب ان کے لڑکے فون پر مغلطات سے نواز کرکہتے تھے تمھارے دفتر کا پتہ ہے تو دفتر کو تالا لگا کر گھر چلے جاتے تھے۔لیکن لندن میں جب ان کے ولیمے کا کارڈ ملا تو ساتھیوں نے کہا صحافت اور سیاست گئی بھاڑ میں، ہم کراچی والے ولیمہ تو دشمن کا بھی نہیں چھوڑتے۔ سب نے اپنے ریشمی پاجامے نکالے اور بچوں سمیت بدھائی دینے پہنچ گئے۔ محل نما شادی ہال میں حفاظتی انتظامات سخت تھے ہال کے اندر داخل ہو کر باہر جانے کی ممانعت تھی۔ سگریٹ پینے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ ایک بزرگ کے مشورے اور معاونت سے ایک بازو والا دروازہ ڈھونڈا اور اس میں پیر پھنسا کر آدھے اندر اور آدھے باہر ہو اپنی علتیں پوری کرنے لگے۔ ایک گاڑی آ کر رکی اور اس میں سے عمر شریف برآمد ہوئے۔ میرے اندر ایک دم وہ احترام جاگا جو کسی بڑے سیلبرٹی یا خاندانی بزرگ کو دیکھ کر جاگ جاتا ہے۔ میں نے سگریٹ بجھائی، آگے بڑھا اور جھک کر پھر نجانے کیوں عمر بھائی کہہ کر سلام کیا۔ویلکم ٹو لندن عمر بھائی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا، ادھر ادھر دیھاب، ان کے ہاتھ پسینے سے شرابور تھے۔ انھوں نے کہا مجھے بھائی کے پاس لے چلو
اور دیکھو میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔ میں نے بتانے کی کوشش کی کہ میں الطاف بھائی کا لڑکا نہیں، میں خود ایک مہمان ہوں۔ انھوں نے کہا جو کوئی بھی ہو سٹیج تک میرا ہاتھ نہیں چھوڑنا۔میں نے کراچی میں میڈیا کے سیٹھوں سے لے کر ایم کیو ایم کے منحرفین میں سب کو الطاف حسین سے خوفزدہ ہوتے دیکھا تھا لیکن میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سٹیج پر کھڑے ہو کر ہر طاقتور کی کراچی کی زبان میں پتلون اتارنے والا عمر شریف بھی کسی سے اتنا خوفزدہ ہو سکتا ہے۔پھر ایک ساتھی نے سمجھایا کہ عمر شریف کراچی کا جم پل تھا اس کی زبان، اس کا فن اس کے لطیفے، اس کی جگتیں کراچی کے غریب محلوں کی گلیوں میں گندھی ہوئی تھیں۔پھر وہ اپنی شہرت کے عروج پر کراچی چھوڑنے کو کیوں مجبور ہوا۔ ایک زمانے میں کراچی سے باہر رہنے والے شاید شہر کو دو لوگوں کی وجہ سےجانتے تھے ایک الطاف حسین اور دوسرا عمر شریف۔ ایک اپنے ایک حکم سے شہر بند کروا دیتا تھا اور دوسرا ایک ایسا ڈرامہ لکھتا کہ مہینوں کھڑکی توڑ رش لیتا تھا۔ ہر بڑے کامیڈین کی طرح عمر شریف کا مزاح بھی کراچی کے حالات کی پیداوار تھا۔اب شہر کا سب سے مشہور فنکار شہر کے سب سے بڑے سیاسی فنکار کا مذاق نہیں اڑا سکتا تو کیا کرتا۔ کچھ امن عامہ کے مسائل بھی تھے لیکن اگر آپ کراچی کے سٹیج پر چڑھ کر ایم کیو ایم کا مذاق نہیں اڑا سکتے، الطاف حسین کی نقل نہیں کر سکتے، تو پھر اس شہر کو چھوڑنا اچھا۔
پاکستان کی تاریخ میں بہت کم فنکار ہوں گے جنھوں نے ایک شہر سے بھاگ کر دوسرے شہر میں اپنا مقام بنایا ہو۔ لاہور میں لالو کھیت کے مزاح کو کون سمجھتا۔ اس لیے انھوں نے پنجابی سیکھی، پنجابی کامیڈی کی کئی صنفوں کو اپنے ڈراموں میں لیا اور خود اپنا تھیٹر کھول کر کئی سال تک جلاوطنی میں رہ کر خود اپنے آپ پر ہی ہنستے رہے اور پنجابیوں کو ہنساتے رہے۔ یہ کام انھوں نے قومی یکجہتی کا درس دینے والی حکومت کی سرپرستی میں نہیں کیا اور نہ ان کے پیچھے کوک سٹوڈیو جیسا محب وطن کاروباری ادارہ تھا۔ اپنے فن کے بل بوتے پر اور اسی عوام کے ساتھ جو سو دو سو روپے کا ٹکٹ خرید کر دو گھنٹے کے لیے اپنے دھکڑے بھلانا چاہتے تھے۔الطاف بھائی کا ولیمہ عمر شریف کے لیے دشمنوں کے درمیان ایک شام کا منظر تھا۔ پاکستان کا ہر بڑا فنکار موجود تھا اور الطاف بھائی کی نظر پڑنے سے پہلے یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ خود اپنے پلے سے ٹکٹ لے کر بھائی کی خوشیوں میں شریک ہونے آیا ہے۔ (الطاف بھائی شاید پہلے سیاستدان تھے جن کی غائبانہ تقریب ولیمہ چوبیس ملکوں میں منائی گئی)۔ عمر شریف نے الطاف بھائی کو شادی کی مبارکباد دی، پھر شادی کے بارے میں کچھ گھسے پٹے لطیفے سنائے اور کسی اور کا ہاتھ پکڑ کھسک لیے۔کراچی کا سب سے بڑا فنکار عمر شریف چلا گیا۔ کراچی کا دوسرا بڑا فنکار خود ایسا گھسا پٹا لطیفہ بن چکا ہے کہ اس کا غائبانہ ولیمہ کھانے والے بھی نہیں ہنستے۔