قومی ترانے کی نئے سرے سے ریکارڈنگ :
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار خواجہ محمد ذکریا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔تدریسِ زبان و ادب سے میری وابستگی کو اب تقریباً ساٹھ سال گزر چکے ہیں لیکن میرے بہت کم شاگرد یہاں تک کہ دوست احباب بھی اس بات کو نہیں جانتے کہ میں نے اپنے ادبی مشاغل کا آغاز شاعری سے کیا تھا
اور گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے ہم جماعت مجھے شاعر ہونے کی حیثیت سے جانتے تھے۔ پھر بوجوہ میری توجہ شاعری کی بجائے تحقیق و تنقید کی طرف ہو گئی۔ چالیس سال اس مشغلے میں صرف کیے تاآں کہ دوبارہ شاعری کی جانب رخ مڑ گیا۔ یکے بعد دیگرے میرے دو شعری مجموعے’آشوب‘ اور ’افتاد‘ شائع ہوئے۔ دونوں مجموعوں میں ہمارے معاشرے کی زبوں حالی کا رونا رویا گیاہے۔ میری اس شاعری کے ستم گر محبوب پرویز مشرف، نواز و شہباز شریف، آصف زرداری وغیرہ رہے ہیں۔ قوم روتی رہی مگر یہ محبوبانِ ستم گر اس پر مہربان نہ ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ اب عمران خان تبدیلی کے نعرے لگا کر میدان میں آئے ہیں تو ان کے برسرِاقتدار آنے کے بعد حالات پہلے سے کسی قدر بہتر ہو جائیں گے۔ میں نے دل و جان سے اس تبدیلی کی حمایت میں اپنے دوست احباب اور شاگردوں سے بہت بحث مباحثے کیے۔ میرے ووٹ جس حلقے میں ہیں وہاں عمران خان خود امیدوار تھے اور ان کے مقابلے میں خواجہ سعد رفیق تھے جو میرے بھانجے ہیں۔ میں نے ان کے خلاف کام کیا اور کھلم کھلا عمران کی حمایت کی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے مزاج کے مدنظر یہ کتنی غلط حکمت عملی تھی! الیکشن کے بعد ہم سب بہت خوش تھے کہ ایک نئی پارٹی برسرِاقتدار آگئی ہے میرا خیال تھا کہ حالات مکمل طور پر تو تبدیل نہیں ہونگے مگر کچھ بہتری ضرور آئے گی تاہم میں اتنی زیادہ حکومتوں کا زخم خوردہ رہا ہوں کہ اس امید میں تشکیک کا پہلو بھی موجود تھا،
چنانچہ میں نے اپنے دوسرے شعری مجموعے ’افتاد‘ (مطبوعہ اگست،2018ئ) کے آخر میں یہ سطور لکھی تھیں:’’مجموعے کی کمپوزنگ مکمل ہو چکی تھی اور پروف ریڈنگ کا کام جاری تھا کہ 25جولائی کو ملک بھر میں عام انتخابات منعقد ہوئے اور عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف وفاق کے علاوہ دو صوبوں میں بھی برسرِاقتدار آگئی۔ یہ پارٹی تبدیلی کے وعدے پر کامیاب ہوئی ہے۔ اگرچہ انھیں آغازِ کار کے لیے حد سے زیادہ بگڑاہوا نظام ملا ہے مگر اس کے باوجود کیا آئندہ برسوں میں کوئی مثبت تبدیلی آئے گی؟ میری شاعری کے دو مجموعے تو نظامِ ملکی کے انتشار کی عکاسی کرتے ہیں۔ وقت بتائے گا کہ تیسرا مجموعہ بھی خدا نخواستہ ویسا ہی ہوگا یا مختلف ہوگا؟وہ امید کیا جس کی ہو انتہا۔۔وہ وعدہ نہیں جو وفا ہو گیا‘‘۔۔موجودہ حکومت کو جب ایک سال گزر گیا تو مجھے اندازہ ہونے لگا تھا کہ مثبت تبدیلی نہیں آئے گی۔ حکومت بہت کچھ مفاہمتیں کر کے بنائی گئی ہے اس لیے حلیفوں کو بھی کچھ دینا پڑے گا مگر رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ ملک کے داخلی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران کے تمام حامیوں کا خیال تھا کہ وہ مفاد پرستوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ اگر ان مفاد پرست اور منافع خور گروہ ان کے قابو میں نہیں آ رہے تو وہ مستعفی ہو کر نئے انتخابات کرائیں گے اور عوام کو واضح لفظوں میں بتائیں گے کہ اکثریت ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے میں مثبت تبدیلی نہیں لا سکتا، اس لیے اگر عوام مثبت تبدیلی چاہتے ہیں تو مجھے زیادہ نشستیں دیں اور اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کرائیں گے مگر ایسا نہ ہوا۔
مفاہمتیں کر کر کے تین سال گزر گئے۔ اب نئے الیکشن میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ مہنگائی مائونٹ ایورسٹ کو چھو رہی ہے۔ روپے کی قدر روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ غریب عوام تو معلوم نہیں کیسے زندگی گزارتے ہوں گے، متوسط طبقے کے لیے بھی گزر اوقات بے حد مشکل ہو گئی ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اقتصادی مسائل کا کوئی حل نہیں قیمتیں بڑھائے چلے جانے سے مسائل بڑھتے جائیں گے اور ہرگز نہیں سلجھیں گے۔ شاید لوگوں کو اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے غیر ضروری مباحث میں لوگوں کو الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور نت نئے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔چند دن پہلے ایک خبر آئی ہے کہ قومی ترانے کی نئے سرے سے ریکارڈنگ کی جائے گی۔ اس کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں۔ کیا قومی ترانہ 78 ایم ایم کے ریکارڈوں پر تیار کیا گیا ہے کہ سوئیوں سے بجا بجا کر اس کے ’توے‘ گھس گئے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس کی بہترین ریکارڈنگ ہوئی ہے جس میں سرِ مو فرق نہیں آسکتا۔ تو پھر ری ریکارڈنگ کی کیا ضرورت ہے؟کسی اخبار میں خبریوں چھپی ہے کہ اس کام کے لیے ایک سٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے جس کے سربراہ جاوید جبار ہیں۔ یہ سٹیئرنگ کمیٹی کیوں بنائی گئی ہے اور کس نے بنائی ہے؟ خبر سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ قومی ترانہ نئی آوازوں اور نئے سازوں سے از سرِ نو ریکارڈ کیا جائے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کے لیے غیر ملکی ماہرین سے مدد لینی پڑے گی۔ موجودہ قومی ترانے میں چالیس کے قریب ساز بجائے گئے ہیں اور گائیکوں میں احمد رشدی کی نمایاں آواز کا ساتھ پندرہ بیس دیگر گلوکاروں نے دیا ہے۔
نیا آرکسٹرا، نئے گانے والے، نئے غیر ملکی سازندے اور ماہرین موسیقی کے ذریعے تیار ہونے والی اس ری ریکارڈنگ کی افادیت کیا ہے؟ کیا حکومت بتائے گی کہ اس منصوبے پر کتنے کروڑ روپے خرچ ہوں گے اور اس سے کیا حاصل ہوگا؟جب ایک دھن تیار ہوتی ہے اور بار بار لوگوں کے کانوں میں پڑتی ہے تو وہ لوگوں کے مزاج کا حصہ بن جاتی ہے۔ تبدیل شدہ ساز اور گائیک اس دھن کو خراب کریں گے اور نامانوس بنا دیں گے۔ بہت سے ملکوں میں ایک ہی قومی ترانہ دو دو سو سال سے بغیر تبدیلی کے رائج ہے۔ شاید اس تبدیلی کا سبب قومی ترانے سے زیادہ قومی خزانے سے محبت کا ہے ۔کچھ عرصہ پہلے ایک اور ’اہم خبر‘ ایک اردو اخبار میں شائع ہوئی تھی کہ ’قومی اسمبلی نے پاکستان کی جانب سے حضرت محمدؐ کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے پالیمانی وفد سعودی عرب بھجوانے کے لیے انتظامات کرنے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی ہے۔۔۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اس وفد کے لیے ارکان کی نامزدگی کی جائے جو حضورؐ کے روضہ پر جا کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جانب سے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرے۔‘آنحضورؐ ہر مسلمان کو دل و جان سے عزیز ہیں اور وہ اپنے ماں باپ اور اولاد سے بڑھ کر آپؐ سے محبت کرتا ہے۔مرحبا سیّدِ مکی مدنی العربی ۔۔دل و جان باد فدایت چہ عجب خوش لقبی ۔۔۔اور غالب نے کہا کہ ’صرف خدا ہی اپنے رسول کی مدح کا حق ادا کر سکتا ہے‘۔ روضۂ رسولؐ پر خراجِ عقیدت پیش کرنے کی یہ خواہش فطری ہے مگر اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ پارلیمان کے اراکین وہاں رو رو کر اپنے دانستہ اور نادانستہ گناہوں کے ارتکاب سے توبہ کرتے۔ علاوہ ازیں، یہ اراکین وہاں جا کر یہ عہد کرتے کہ وہ اپنی زندگیاں آنحضورؐ کی سیرت کی روشنی میں بسر کریں گے۔ اور آغازِ کار کے طور پر وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے پہلے پاکستانی عوام کے رو برو اعلان کرتے کہ خیروبرکت کے اس سفر میں سرکاری خزانے سے وہ کچھ نہیں لیں گے، تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کریں گے۔ اسمبلی کے تمام ارکان کروڑپتی ہیں۔ اپنے اس مبارک سفر کے اخراجات وہ خود ادا کرتے تو اللہ تعالیٰ انھیں ثواب دارین عطا فرماتے۔