پنڈورا پیپرز ، بہتی گنگا میں سب نےہاتھ دھوئے 700 پاکستانی سیاستدانوں، سابق اعلیٰ فوجی افسران، تاجروں،صنعتکاروں،بیورو کریٹس اور میڈیا مالکان کی آف شور کمپنیاں بے نقاب
اسلام آباد دنیا بھر کی اہم شخصیات کے خفیہ مالیاتی معاملات پر انٹرنیشنل کنسورشیئم آف انویسٹیگیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ایک بڑی بین الاقوامی تحقیق پینڈورا پیپرز کے نام سے جاری کردی گئی ہے جس میں میڈیا رپورٹس کے مطابق 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں۔نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے وزیرخزانہ شوکت ترین، وزیر آبی امور مونس الہٰی، سینیٹر فیصل واوڈا، اسحق ڈار کے بیٹے، شرجیل میمن، وفاقی وزیر خسرو بختیار کے خاندان کے نام اور علیم خان جیسے اہم نام سمیت 700 سے زائد پاکستانی شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق پینڈورا
پیپرز میں عسکری ادارے کے چند ریٹائرڈ عہدیداروں، کاروباری شخصیات، ایگزیکٹ کمپنی کے مالک شعیب شیخ سمیت میڈیا اداروں کے مالکان کے بھی نام آئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی وقارمسعود کے بیٹے کی بھی آف شورکمپنی نکل آئی ، ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کی آف شور کمپنی بھی پنڈورا پیپرزمیں شامل ہے۔رپورٹ کے مطابق سابق صدر پرویز مشرف کے سابق ملٹری سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شفاعت اللہ شاہ کے نام بھی آف شور کمپنی نکلی ہے۔انہوں نے آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں ایک مہنگا اپارٹمنٹ خرید رکھا ہے۔ئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل برائے انسداد دہشت گردی میجر جنرل ریٹائرڈ نصرت نسیم کے نام بھی ایک آف شور کمپنی نکل آئی ہے۔میجر جنرل ریٹائرڈ نصرت نسیم نے 2009 میں اپنی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد اپنے نام آف شور کمپنی رجسٹرڈ کرائی۔
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ افضل مظفر کے بیٹے کے نام بھی ایک آف شور کمپنی نکلی ہے۔افضل مظفرپراسٹاک مارکیٹ میں 4 ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے الزام میں مقدمہ بھی چلا۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن نے آف شور کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدیں،سابق ائیرچیف مارشل عباس خٹک کے دو بیٹوں کے نام بھی آف شور کمپنی نکلی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق جنرل ریٹائرڈ خالد مقبول کے داماد احسن لطیف، ایمبیسیڈر ائٹ لارج فار فارن انویسٹمینٹ علی جہانگیر، نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے ڈائریکٹر جنرل عدنان آفریدی، ابراج گروپ کے عارف نقوی، سابق سیکرٹری دفاعی پیداوار لیفٹیننٹ جنرل تنویر طاہر کی اہلیہ زہرا تنویر، جنرل (ر) علی قلی خان کی ہمشیرہ شہناز سجاد، ائیر مارشل (ر) عباس خٹک کے بیٹے احد خٹک اور عمر خٹک، امپیریئیل شوگر ملز کے مالک نوید مغیث شیخ، تاجر بشیر دائود، آس حفیظ (مرچنٹ) اور بزنس مین عارف شفیع کے نام بھی فہرست میں شامل ہیں۔دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ ہم اراکین سمیت کابینہ کے وزراء اور ان کے خاندان کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابقاہم مالی مفادات رکھنے والوں کے پاس خفیہ طور پر رکھی ہوئی ملینز ڈالرز کی کمپنیاں اور ٹرسٹ ہولڈنگ پر مشتمل چھپی ہوئی دولت ہے۔
رپورٹ میں فوجی عہدیداروں کو بھی نامزد کیا گیا ہے تاہم وضاحت کی گئی ہے کہ رپورٹ میں شامل دستاویزات میں عمران خان کی اپنی ذاتی حیثیت میں کوئی کمپنی نہیں ہے اور ایسی کوئی بات نہیں ہے۔پینڈورا پیپرز میں دنیا بھر کے 91 ممالک اور خطوں کے 35 موجودہ اور سابقہ سربراہان مملکت، 330 سیاست دان اور عوامی نمائندوں کی خفیہ مالیاتی دستاویزات شائع کی گئی ہیں۔ان خفیہ دستاویزات میں یمن کے بادشاہ، یوکرائن، کینیا، ایکواڈور کے صدور، جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم اور سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا نام بھی شامل ہے۔ان دستاویزات میں روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے غیر سرکاری وزیر برائے پروپیگنڈا اور روس، امریکا، ترکی اور دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے 130 سے زائد ارب پتی افرادکے مالیاتی لین دین کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔
فہرست کے مطابق بھارتی کرکٹر سچن ٹنڈولکر، پاپ اسٹار شکیرا، سپر ماڈل کلاڈیا شیفر، بھارتی صنعت کار انیل امبانی بھی خفیہ اثاثے رکھنے میں ملوث ہیں۔قبل ازیں رپورٹ کے مطابق ممکنہ طور پر یہ دنیائے صحافت کی تاریخ میں کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔آئی سی آئی جے کے بیان کے مطابق پینڈورا پیپرز دنیا کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والی ایک کروڑ 19 لاکھ سے زائد فائلز کے ‘لیکڈ ڈیٹا بیس پر مشتمل ہیں۔ادارے نے بتایا تھا کہ دنیا کے 117 ممالک سے 150 میڈیا اداروں سے تعلق رکھنے والے 600 سے زائد رپورٹرز نے 2 سال تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں حصہ لیا۔پاکستان سے انگریزی روزنامے دی نیوز انٹرنیشنل سے وابستہ صحافی عمر چیمہ اور فخر درانی اس تحقیقات میں شامل تھے۔آئی سی آئی جے کے مطابق یہ انکشافات اتوار کے روز پاکستانی وقت کے مطابق رات ساڑھے 9 بجے جاری کئے گئے ۔
یاد رہے کہ اپریل 2016 میں آئی سی آئی جے کی تحقیق پاناما پیپرز کے نام سے سامنے آئی تھی جس نے دنیا میں تہلکہ مچادیا تھا۔پاناما پیپرز ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھے جس میں درجنوں سابق اور اس وقت کے سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہور شخصیات اور کھلاڑیوں کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ موجود تھا۔پاناما لیکس میں پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق سامنے آیا تھا جس پر ان کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمات چلائے گئے تھے اور اسی وجہ سے نواز کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔اگر قانون کے مطابق آف شور کمپنی ڈکلیئر کی گئی ہو اور وہ کمپنی کسی غیرقانونی کام کیلئے استعمال نہ ہو تو آف شور کمپنی بنانا بذات خود کوئی غیرقانونی عمل نہیں ہے۔