عمران اینڈ کمپنی غربت اور مہنگائی کے مفہوم سے ناآشنا :
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار محمد اکرم چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں وفاقی وزیر اطلاعات محترم فواد چودھری کا بیان پڑھ رہا تھا۔ وہ فرما رہے تھے کہ مہنگائی ہر کسی کا مسئلہ نہیں ہے، کسانوں نے جو پیسے کمائے انہوں نے اس کی بھی تفصیل بیان کی۔
فواد صاحب تجربہ کار ہیں، کھری بات کرتے ہیں یہ ان کی خوبی ہے لیکن حکومت میں رہتے ہوئے کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں شاید اسی مجبوری کے تحت انہوں نے یہ کہا ہے کہ مہنگائی ہر کسی کا مسئلہ نہیں، چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ یہ سب کا مسئلہ نہیں، لیکن جن کے لیے مہنگائی مسئلہ ہے ان کا مسئلہ حل کون کرے گا۔ کیا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اگر شہریوں کو کچھ مسائل کا سامنا ہے تو انہیں حل کیا جائے۔ ویسے افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی ہر کسی کا مسئلہ ہے۔ صرف تین چار یا زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد کو نکال کر پچانوے سے ستانوے فیصد کا مسئلہ مہنگائی لیکن اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مہنگائی سب کا مسئلہ نہیں تو پھر حکومت جانے اور عام آدمی جانے۔ دراصل یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے آج تک پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت مہنگائی پر قابو نہیں پا سکی۔ قابو پانا تو دور کی بات ہے حکومت استحکام پیدا کرنے میں بھی ناکام رہی ہے۔ صرف فواد چودھری ہی نہیں وفاقی مشیر خزانہ جناب شوکت ترین بھی کچھ ایسے ہی الفاظ سے پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ترین صاحب فرماتے ہیں پاکستان کا وزیراعظم غریب کے لیے درد رکھتا ہے۔ ترین صاحب کی مہربانی ہے کہ انہوں نے یہ درد محسوس کرنے کے بعد بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہر دوسرا پاکستانی اس درد میں مبتلا ہے لیکن حکومت اس درد کی دوا کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
شوکت ترین کو پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے زیادہ قیمت میں کم اضافے سے ہونے والے نقصان کی فکر کھائے جا رہی ہے پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کا وزیراعظم غریب کے لیے درد رکھتا ہے۔ ذرا باہر نکلیں اور کسی پیٹرول پمپ پر چلے جائیں پیٹرول خریدنے والے کسی بھی شخص سے پوچھیں اندازہ ہو جائے گا کہ خلق خدا کیا کہہ رہی ہے۔شوکت ترین کہتے ہیں کہ “پٹرولیم لیوی کم ہو کر دو، ڈھائی روپے پر آگئی، پٹرول کی قیمت کم بڑھانے سے دو ارب کا نقصان ہوا ہے۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں خطے کے مقابلے میں کم ہیں، وبا کی صورتحال سے متاثر ہوئے ہیں”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہری کی ذمہ داری ہے۔ سہولت فراہم کرنا حکومت کے ذمے ہے آپ یہ نہیں گنوا سکتے کہ خطے میں پیٹرول کی قیمت کیا ہے یا پھر لیوی کم ہو گئی ہے یا پھر قیمت کم بڑھانے سے دو ارب کا نقصان ہوا ہے۔ کیا حکومت یہ نہیں دیکھتی کہ قیمتوں میں اضافے سے کروڑوں افراد پر کتنا بوجھ پڑا ہے۔ شوکت ترین صاحب فرماتے ہیں کہ “لوگ کہتے ہیں بہت زیادہ مہنگائی ہوگئی ہے، برطانیہ میں قیمتیں اکتیس فیصد بڑھی ہیں۔” جناب ہر شہری کو برطانوی شہری جیسی سہولیات فراہم کریں پھر انہیں مثال بھی دیں۔ کیا کوئی موازنہ بنتا ہے۔ یہ تو زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ جناب یہ لوگ کہتے نہیں ہیں کہ مہنگائی ہو گئی ہے یہ حقیقت ہے۔ یہ کسی کے کہنے سے بدل نہیں سکتی۔
شوکت ترین کہتے ہیں کہ “سیلز ٹیکس میں چھوٹ دے کر گھی سستا کریں گے، پاکستان کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوگئی ہے، معیشت پانچ فیصد سے زیادہ ترقی کرے گی۔ وزیراعظم غریب پر کم سے کم بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں۔” اس ساری گفتگو میں کہیں بھی عام آدمی کے مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ حکومت اسے مسئلہ سمجھنے کیلئے تیار ہی نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہر کسی کا مسئلہ نہیں ہے۔پھر مہنگائی کم کیسے ہو گی۔ کیا پیٹرول مہنگا ہونے سے، بجلی مہنگی ہونے سے، ادویات مہنگی ہونے سے، آٹا، گھی، چینی، تیل اور اشیاء خوردونوش کے مہنگے ہونے سے عام آدمی متاثر نہیں ہوتا۔ کیا عجب منطق ہے۔ یہی وہ سوچ ہے جس کی وجہ سے پچانوے یا ستانوے فیصد افراد تکلیف میں مبتلا ہیں شوکت ترین اور فواد چودھری ان پانچ یا تین فیصد میں شامل ہیں جنہیں پیٹرول مہنگا ہونے سے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہ دو لوگوں کے بیانات ہیں اب میں آپکو تحریکِ انصاف کے ایک بہت بااثر، بہت متحرک اور طاقتور انسان کے گھر ہونے والی بیٹھک کا احوال بیان کرتا ہوں۔ دو درجن کنال کے گھر یا محل میں رہائش پذیر، اربوں، کھربوں کے کاروبار کے مالک یہ سیاست دان بھی سمجھتے ہیں کہ مہنگائی نہیں ہے نہ ہی غربت ہے بلکہ لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلا ہے، ناشکری آئی ہے اور اسے غربت کا نام دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں میرے خیال میں آج اتنی غربت نہیں جتنا لوگوں نے شور مچا رکھا ہے۔
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ دراصل خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔ غربت تو وہ تھی کہ سکول میں تختی پر (گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو (مٹی) لگایا کرتے تھے۔(سلیٹ) پر سلیٹی کے پیسے نہیں ہوتے تھے (بجری کا کنکر) استعمال کرتے تھے۔ سکول کے کپڑے جو لیتے تھے وہی عید پر بھی پہن لیتے تھے۔ اگر کسی شادی بیاہ کے لیے کپڑے لیتے تھے تو سکول کلر کے ہی لیتے تھے۔کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔جوتا بھی اگر پھٹ جاتا بار بار سلائی کرواتے تھے۔۔ جوتا کسی مشہور کمپنی کا نہیں بلکہ پلاسٹک کا ہوتا تھا۔گھر میں اگر مہمان آجاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ کر لاتے تھے۔آج تو ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے۔ مہمان تو کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے۔سکول کے بچوں کے دو یا تین یونیفارم ضرور ہوتے ہیں۔اگر کسی کی شادی پہ جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کے لیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔ماضی میں ایک چلتا پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دوسو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا رو رہا ہوتا ہے اْسکی جیب میں تیس ہزار کا موبائل،کپڑے کم سے کم دو ہزار کے، جوتا کم سے کم تین ہزار کا ہے۔ غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتّی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلا لیتے۔
آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے اگر کسی کی شادی میں شامل ہونے کیلئے تین جوڑے کپڑے یا عید کیلئے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے وہ سمجھتا ھے میں غریب ہوں۔آج خواہشات کا پورا نہ ہونے کا نام غربت ہے.ہم ناشکرے ہوگئے ہیں, اسی لئے برکتیں اٹھ گئی ہیں. سچ بات یہ ہے کہ پہلے درجہ بندی کم تھی معاشرتی حیثیت کم و بیش ایک جیسی تھی۔ توکل بہت تھا، باہمی ہمدردی زیادہ تھی، مل کر رہنا اچھا سمجھتے تھے جبکہ آجکل تنہائی پسندی ہے، علم کم مگر عمل بہتر تھا۔اس دور میں اللہ کی نعمتیں بدرجہا زیادہ ہیں لیکن اکثر شکر ، توکل اور باہمی تعلقات کمزور ہیں۔ ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ کسی سرکاری ہسپتال کا چکر لگائیں، کسی غریب کے گھر جا کر دیکھیں کہ دو وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتا، خود حکومت دستر خوانوں اور پناہ گاہوں کے منصوبے چلا رہی ہے، کیا یہ غربت کی نشانی نہیں، کیا سڑکوں پر سوتے گوشت پوست کے انسان غربت کی نشانی نہیں، کیا وقت سے پہلے بوڑھے ہوتے انسان غربت کی نشانی نہیں، ہر شخص ایک سے زائد بیماریوں میں مبتلا ہے کیا یہ غربت کی نشانی نہیں، کوئی بچوں کو پڑھانے کے بجائے کام پر ڈالتا ہے کیا یہ غربت کی نشانی نہیں۔ خود جیسے تیسے لوگوں کا حق مار کر امیر ہونے والے حکمرانوں کے نزدیک غربت کے معیار بدل گئے ہیں یہی وجہ ہے انہیں ناشکری نظر آتی ہے۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ وہ مسئلہ حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ وہ دیہاتوں کی مثالیں دیتے ہیں پھر شہروں کو دیہاتوں میں بدل دیں۔ گرا دیں سب کچھ اور شہری درجے ختم کریں، خود بھی گجنے درختوں میں بیٹھیں، کھیتوں میں جا کر اسمبلیاں لگائیں۔ یہی سوچ مسائل کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے ہاں سب کچھ ہے تو باتیں آتی ہیں۔ وسائل سے محروم، آسائش سے محروم طبقے کا مذاق اڑانا سب سے آسان ہے اور یہ ظلم حکومت صبح، دوپہر شام کر رہی ہے۔