in

جیسے عوام ویسے حکمران: ایک درویش اوربدکردار شخص کے ساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ جو آپ کو ضرور کوئی سبق دے جائے گا

جیسے عوام ویسے حکمران: ایک درویش اوربدکردار شخص کے ساتھ پیش آنے والا ایسا واقعہ جو آپ کو ضرور کوئی سبق دے جائے گا

لاہور (ویب ڈیسک) نامور مضمون نگار ناصر بشیر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ایک نوجوان دنیا سے مایوس ہُوا تو اس نے جنگل کی راہ اختیار کی۔ چلتے چلتے وہ ایک ایسی جگہ جا پہنچا جہاں ایک بوڑھا آدمی دو زانو بیٹھا ہوا تھا اور بآوازِ بلند یہ دعا مانگ رہا تھا: ”

اے میرے خدا! مجھے تو اس ملک کا بادشاہ بنا دے۔ بادشاہ بن کر میں اس ملک کا سارا نظام ٹھیک کردوں گا۔ کوئی شخص کسی پر ظلم نہیں کر سکے گا۔ انصاف کا بول بالا ہوگا۔ چوری اور راہ زنی کا خاتمہ کر دوں گا۔ غریب اور امیر برابر ہوں گے۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ غلط کاری کرنے والوں کو سخت سزا دوں گا۔ بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والے کو سخت سزائیں دوں گا۔ مجرموں کو تختہ دار پر پہنچاؤں گا۔ نیک اور پرہیز گار لوگوں کو اپنا مشیر بناؤں گا۔ رعایا کے حق میں بولنے والوں اور پرہیز گار لوگوں کو اپنا مشیر بناؤں گا۔ رعایا کے حق میں بولنے والوں کو اپنا وزیر بناؤں گا۔ہر طرف حق کا بول بالا ہوگا۔ جھوٹے خداؤں کو نیست و نابود کر دوں گا۔ رشوت اور سفارش کا قلع قمع کر دوں گا۔ میرٹ پر ملازمتیں دوں گا۔ مہنگائی کا ملک میں نام و نشاں تک نہ ہوگا۔ اے میرے خدا! میری فریاد سن لے تاکہ میں جلد از جلد اس ملک میں بہترین نظامِ حکومت نافذ کر سکوں“۔اتنا کہہ کر اس بوڑھے نے آمین کہا اور دونوں ہاتھ منہ پر پھیر لیے۔ بوڑھے نے ایک نوجوان کو وہاں دیکھا تو بولا: ”تم کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو؟“ نوجوان نے کہا: ”بابا جی! میں بھی آپ کی طرح دنیا چھوڑ آیا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اپنا شاگرد بنا لیں اور اجازت دیں کہ میں بھی آپ کے ساتھ اسی جگہ دو زانو بیٹھا کروں اور وہ دعا مانگا کروں جو میرے دل میں ہے۔

بوڑھے نے کہا: ”ٹھیک ہے۔ تم میرے ساتھ یہاں رہ سکتے ہو۔ اپنی دعا مانگ سکتے ہو لیکن ایک شرط ہے۔ شرط یہ ہے کہ تم ہر روز صبح سویرے شہر جایا کرو گے۔ میرے اور اپنے لیے کھانا مانگ کر لایا کرو گے“۔ نوجوان نے کہا: ”ٹھیک ہے بابا جی! مجھے آپ کی شرط منظور ہے۔ میں ہر روز صبح سویرے شہر جایا کروں گا۔ ہم دونوں مل کر شکم کی آگ بجھایا کریں گے اور اس کے بعد اس جگہ بیٹھ کر اپنی اپنی دعا مانگا کریں گے“۔ اس نوجوان کے کاندھے پر لٹکے ہوئے تھیلے میں کچھ خشک میوہ جات تھے۔ اس نے وہ نکالے اور بوڑھے کے سامنے رکھ دیے۔ دونوں نے مل کر کھائے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ پیٹ بھر گیا تو بوڑھے نے کہا: ”نوجوان! میں نے تمھیں اپنی شاگردی میں لیا۔ اب تم چاہو تو اپنی دعا مانگ سکتے ہو“۔ یہ سن کر وہ نوجوان بہت خوش ہوا۔ دو زانو بیٹھ گیا اور بآواز بلند اپنی دعا مانگنے لگا: ”اے میرے خدا: مجھے تو اس ملک کا بادشاہ بنا دے۔ ملک کا بادشاہ بن کر میں سارا نظام تلپٹ کر دوں گا۔ طاقت ور کو کمزور پر ظلم کی اجازت دے دوں گا۔ انصاف کی دھجیاں اڑاؤں گا۔ چوری اور راہ زنی عام کر دوں گا۔ غریب اور امیر کو ایک دوسرے سے دور کر دوں گا۔ بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کروں گا۔ مجرموں کو کبھی سزا نہیں ہونے دوں گا۔ بدنام، بدعنوان اور خطاکار لوگوں کو اپنا مشیر بناؤں گا۔ خوشامدیوں کو وزارتیں دوں گا۔ ہر طرف جھوٹ کا راج ہوگا۔

رشوت اور سفارش عام کر دوں گا۔ میرٹ کا خاتمہ کر دوں گا۔ ہر چیز پہلے سے مہنگی کر دوں گا۔ اے خدا! میری فریاد سن لے، تاکہ میں جلد از جلد اپنے منشور پر عمل کر سکوں“۔بوڑھے نے نوجوان کی دعا سنی تو بولا: ”یہ تم کیسی دعا مانگ رہے ہو؟“ نوجوان بولا: ”بابا جی! آپ مجھے اپنے ساتھ بیٹھ کر دعا مانگنے کی اجازت دے چکے ہیں۔ اب آپ کو اپنی زبان سے پِھرنا نہیں چاہیے“۔ بوڑھے نے کہا: ”ٹھیک ہے۔ تم اپنی دعا مانگتے رہنا۔ میں اپنی دعا مانگتا رہوں گا“۔ اب معمول یہ تھا کہ نوجوان صبح سویرے شہر جاتا۔ کھانا مانگ کر لاتا۔دونوں مل کر کھاتے۔ اس کے بعد اپنی اپنی دعا مانگتے۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ایک دن نوجوان صبح سویرے شہر کے دروازے پر پہنچا تاکہ کھانا مانگنے کے لیے اندر داخل ہو سکے۔

دروازہ کھلنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ کچھ گھڑیوں کے بعد دروازہ کھلا۔ نوجوان نے پہلا قدم اندر رکھا تو سامنے بہت سے لوگ زریں ہار لیے کھڑے شور مچا رہے تھے۔ ”بادشاہ سلامت! خوش آمدید، بادشاہ سلامت خوش آمدید“۔ دراصل ملک کے بادشاہ کا اچانک انتقال ہو گیا تھا۔ اولاد اس کی تھی نہیں۔ سو وزیروں مشیروں نے فیصلہ کیا تھا کہ شہر کے دروازے سے جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، اس کو بادشاہ بنا لیا جائے۔ وہاں موجود لوگ اس نوجوان کو کندھوں پر بٹھا کر محل میں لے گئے اور تختِ شاہی پر بٹھا دیا۔ سر پر تاج رکھ دیا۔ نوجوان اپنی دعا پوری ہونے پر بہت خوش تھا۔ اس نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے ”منشور“ پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ چند ہی مہینوں میں اس نے

سارا ملکی نظام تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس نے طاقت وروں کی سرپرستی کرنا شروع کر دی۔ کمزوروں پر ظلم کرنے لگا۔ غریب اور امیر کے درمیان فاصلے بڑھا دیے۔ بچوں اور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کی سرپرستی کرنے لگا۔ وہ بطورِ ملزم قاضی کے سامنے پیش کیے جاتے توانھیں معاف کرنے کی سفارش کرتا۔ اس نے چن چن کر بدنام زمانہ، بدعنوان اور خطاکار افراد کو وزیر اور مشیر لگایا۔ خوشامدیوں سے وہ پیار کرتا۔ سچ کہنے والوں کو زندان کی نذر کر دیتا۔ رشوت کا لین دین عام کر دیا۔ ملازمتیں سفارش پر دیتا۔ مہنگائی اتنی کر دی کہ عام لوگوں کا جینا مشکل ہو گیا۔ جب اسی طرح دوچار سال گزرے تو اہلِ دربار کو فکر لاحق ہوئی۔ وہ سوچنے لگے کہ ان سے بہت بڑی بھول ہو گئی ہے لیکن ادب کی وجہ سے ، وہ بادشاہ کی روک ٹوک نہیں کر سکتے تھے۔ ایک ہوشیار درباری نے آخر اس نوجوان کے بوڑھے استاد کو تلاش کر لیا۔ اس نے سرکاری ہرکاروں کے ذریعے بوڑھے کو شہر بلوا لیا اور اسے کہا کہ تمہارا شاگرد رعایا پر بہت ظلم و ستم کر رہا ہے۔ اسے منع کرو۔

بوڑھے کو اس نوجوان کی دعا یاد آ گئی۔ اہلِ دربار کے کہنے پر وہ بادشاہ کے روبرو جا کھڑا ہوا اور بولا: ”اے میرے شاگرد! اگر خدا نے تجھے اس ملک کا بادشاہ بنا ہی دیا ہے تو رعایا پر ظلم کی روش ترک کر دے۔ رعایا پر رحم کر، ان کی دعائیں لے“۔بادشاہ نے اپنے استاد کی نصیحت بہت تحمل سے سنی۔ ساری بات سننے کے بعد بولا: ”بابا جی! ہم دونوں جنگل میں بیٹھ کر ایک ساتھ دعا مانگتے رہے۔ آپ اللہ کے نیک آدمی ہیں۔ آپ کی دعا بھی بہت اچھی تھی لیکن اللہ نے آپ کی دعا قبول نہیں کی۔ اس نے آپ کو بادشاہ نہیں بنایا۔ اللہ نے مجھ گناہ گار کی دعا قبول کر لی۔ مجھے اپنے ”منشور“ پر عمل کرنے کا موقع دیا۔ دراصل اس ملک کے لوگ ہیں ہی اس قابل کہ انہیں مجھ جیسا حکمران ملے۔ اس ملک کے لوگوں سے شاید اللہ تعالیٰ خوش نہیں۔ اس لیے اس نے میری دعا سن لی۔ اگر اللہ تعالیٰ اس ملک کے لوگوں سے خوش ہوتا تو آپ کو بادشاہ بناتا۔میں آج جو کچھ کر رہا ہوں، یہی خدا کی مرضی ہے۔ آپ کو خدا کی مرضی میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر بوڑھا لاجواب ہو گیا۔ کورنش بجا لانے کے بعد اس نے بادشاہ سے اجازت لی اور جنگل کی طرف چلا گیا۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

عالمی منڈی سے بڑی خبر آگئی ، خام تیل کی قیمتیں یکدم کتنی گر گئیں؟ بڑی خوشخبری

ایک انوکھا کیس!!! وہ ٹھگ جس نے بیوی کا انتقام لوگوں سے لینا شروع کر دیا۔۔۔ شاطر ملزم نے واردات کے بعد سارے ثبوت کیسے مٹا دیئے؟؟؟؟