سوشل میڈیا پر ہر طرح کی معلومات اور دلچسپ خبریں موجود ہوتی ہیں
سوشل میڈیا پر ہر طرح کی معلومات اور دلچسپ خبریں موجود ہوتی ہیں
سوشل میڈیا پر ہر طرح کی معلومات اور دلچسپ خبریں موجود ہوتی ہیں جو کہ آپ کے بھی حیرانی کا باعث بنی ہوں۔اس خبر میں آپ کو ایک ایسے قبرستان کے بارے میں بتائیں گے جہاں نام کے بجائے شناختی کارڈ کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔ترکی میں پاکستانیوں کا ایک ایسا قبرستان آباد ہے جہاں
ان کے ناموں کے بجائے شناختی کارڈ سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔ اس قبرستان میں کچی قبریں موجود ہیں جہاں ایک نہیں دو نہیں بلکہ کئی قبریں موجود ہیں۔یہ قبریں دراصل ان تارکین وطن کی ہیں جو کہ ترکی کے راستے غیر قانونی طور پر یورپ میں
داخل ہونا چاہتے تھے۔ ترکی اور ایران کے درمیان وان نامی ایک جھیل موجود ہے جو کہ کئی افغان، پاکستانی اور دیگر ممالک کے شہریوں کو موت سے ہمکنارکر چکی ہے۔2019 کے جون اور دسمبر میں 70 کے قریب تارکین وطن غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی غرض سے نکلے تھے مگر موت سے ہمکنار ہو گئے۔تارکین وطن کو ایران اور ترکی کے درمیان اس
جھیل کو پار کرنا پڑتا ہے جہاں موت کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ جھیل تک پہچنے سے پہلے ہی تارکین وطن کو سرحدی پہاڑوں کو عبور کرنا پڑتا ہے، یہ وہی پہاڑ ہیں جہاں ہر سال برف پگھلنے سے دیہاتیوں کو یہاں سے برف میں جمی ہوئی لاشیں ملتی ہیں۔چونکہ ان تارکین وطن کی شناخت نہیں ہو پاتی اسی لیے انہیں قریبی ہی واقع قبرستان میں سپرد خاک کر دیا جاتا ہے، یہ قبرستان
ترک صوبے وان میں موجود ہے۔ یہی جھیل خوشگوار موسم میں اپنی آب و تاب پر ہوتی ہے،پانی کا اتار چڑھاؤ چھوٹی کشتیوں کو پلٹا دیتا ہے اور تارکین وطن کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان کے کھاریاں کے رہائشئ مہدی حسن بھی ایک ایسے ہی تارکین وطن تھے جو ترکی کے راستے یورپ جا رہے تھے، والد نے بیٹے کو جانے سے بارہا روکا، مگر بیٹے کی ضد کے آگے ہار مان لی۔17 انڈیپینڈینٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق
سالہ مہدی حسن 27 جون 2019 کو ڈوبنے والی کشتی کے افراد میں موجود تھے۔ گھر والوں کو جب واقعے کی اطلاع ملی تو والد کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور والدہ جیسے سکتے میں چلی گئیں۔ اب بھی والدہ کو لگتا ہے کہ جیسے دروازے پر بیٹا آ گیا ہو۔والد کہتے ہیں کہ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ راستہ اس حد تک خطرناک ہے تو بیٹے کو کبھی نہیں جانے دیتا۔