اردو کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکرجس محفل میں بھی جاتیں، وہاں سے انہیں ننگے پاوں گھر جانا پڑتا تھا، مگر کیوں ؟ جانئے
لاہور(ویب ڈیسک)ادباءاورتخلیق کاروں میں بھی مجذوبیت ،بے پروائی کا عنصر ہوتا ہے ۔یہ غیر معمولی لو گ اپنی خاص کیفیت میں خود کو بہت ہلکا پھلکا کرلیتے ہیں۔اس ضمن میں بہت سے ادیبوں کے دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات سامنے آچکے ہیں،
اردوشاعری کی جان ، پروین شاکر کی شاعری سے انکے جذب وسوز اور کیف کا اندازہ
کیا جاسکتا ہے تو عملی زندگی میں انکی یہ عادت بہت عام تھی کہ وہ گھر میں جوتے کم ہی پہناکرتی تھیں۔ کسی بھی ادبی محفل میں جاتیں تو اپنے جوتے اتار دیا کرتی تھیں اور ننگے پیرہی گھوم پھرکر احباب سے بات چیت کیا کرتی تھیں
۔ان کے پیر بہت خوبصورت اور متوازن تھے۔ادبی لوگ بتاتے ہیں کہ جب وہ گھر واپسی کے لئے نکلتیں تو انکے جوتے غائب ہوچکے ہوتے تھے ۔وہ کسی اور کا لایا ہوا جوتا نہیں پہنتی تھیں بلکہ ننگے پیرہی گاڑی میں سوار ہوکر گھرآجاتیں ۔وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتی تھیں۔
ایک بار تووہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روک کر زورزور سے ہارن بجانے لگ گئی تھیں، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں، انہیں جوتا چاہیے،دراصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں
اور اب انہیں دوسری جگہ جانے کے لئے جوتالازمی چاہئے تھا۔ان کی اس عادت کا دوستوں کو علم تھا ،اس لئے وہ مذاقاً بھی کہہ لیتے کیا آپ کے لئے جوتے کا بندوبست کیا جائے۔انہیں یہ مشورہ بھی دیا جاتا تھا کہ وہ جوتوں کا ایک اضافی جوڑا گاڑی میں رکھا کریں لیکن ایک آدھ بار سے زیادہ وہ یہ عادت نہ اپنا سکیں۔