امدادی کام کے لیے لی جانے والی2لاکھ کی کشتی پر 4لاکھ روپے ٹیکس دیا ہے،وفاقی حکومت کو شرم نہیں آرہی،فیصل ایدھی
کراچی (این این آئی)ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے کہا ہے کہ سندھ میں سیلاب کی صورتحال بہت خراب ہے، سیلاب اور بارش سے ہونے والی ہلاکتیں رپورٹ نہیں ہورہی ہیں، اصل حقائق کہیں زیادہ خطرناک ہیں،اگر سیلاب سے لوگ بچ بھی گئے تو بھوک اور بیماریوں سے مر جائیں گے،حکومتی سطح پر کام کرنے والوں کا سیلاب زدہ علاقوں میں رویہ بہت خراب ہے،حکومت کو اعلان کرنا چاہیے کہ قرضوں کی رقم سیلاب متاثرین پر خرچ کریں گے،ہم نے جو کشتی لی ہے
اس کی قیمت 2لاکھ روپے ہے مگر ہم نے اس پر 4لاکھ روپے ٹیکس دیا ہے،وفاقی حکومت کو شرم نہیں آرہی، فلاحی تنظیموں سے ٹیکس لے رہے ہیں،ہم عالمی اداروں اور اپنے لوگوں سے امداد کی اپیل کرتے ہیں،امداد نہ ملنے کے باعث مزید کئی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں،پاک فوج اور حکومت نے بھی متاثرہ علاقوں میں بہت کام کیا ہے
،کراچی والوں نے ماضی میں جس طرح اپنا حصہ ڈالا آج وہ نظر نہیں آرہا،مشکل وقت میں کراچی کے شہری ہمارا ساتھ دیں۔وہ جمعہ کو کراچی پریس کلب میں ذوالفقارعلی بھٹو جونیئر،کرامت علی،خضر قاضی،ناصر منصور،زہرا خان،رشید اے رضوی،ڈاکٹرقیصر بنگالی،ڈاکٹرعلی اظہر،ڈاکٹر ٹیپو سلطان،واحد بلوچ اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔فیصل ایدھی نے کہا کہ سندھ میں جو کچے مکانات تھے وہ گر چکے ہیں،میں 9دن وہاں رہا مجھے اندازہ ہے کہ وہاں صورتحال بہت خراب ہے،ہم ابھی تک صرف 10فیصد لوگوں تک پہنچ سکے ہیں، جبکہ 90فیصد باقی ہیں جو پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں
،حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنا ہونگے، بچنے والے سارے پیسے سیلاب متاثرین تک پہنچائیں جائیں۔انہوں نے کہا کہ سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے گھر نہیں چھوڑ سکتے، وہ ہم سے کھانے کی سہولت مانگ رہے ہیں،سندھ میں کھانے پینے کی بھی اشیا نہیں مل رہی،سیلاب کے باعث صورتحال بہت زیادہ خراب ہے،دو ہزار دس کے سیلاب سے کہیں زیادہ تباہی ہے،
ہم عالمی اداروں اور اپنے لوگوں سے امداد کی اپیل کرتے ہیں،امداد نہ ملنے کے باعث مزید کئی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں،پاک فوج اور حکومت نے بھی متاثرہ علاقوں میں بہت کام کیا ہے،حکومت کو پچیس ہزار روپے کی امداد کو بڑھانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل و دیگر صنعتیں تباہی کے دہانے پر ہیں،ایم ڈی ایم اے قائم ہے لیکن کہیں نظر نہیں آتا،
غذائی بحران پیدا ہوسکتا ہے، ملک میں قحط پڑ سکتا ہے،واہگہ کے ساتھ ساتھ کھوکھراپار بارڈر بھی کھولا جائے۔معروف ماہر قانون رشید اے رضوی نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس جلسوں کے لیے لوگ ہیں لیکن سیلاب زدگان کی مدد کے لیے رضاکار نہیں ہیں،چیئر ٹیز ایکٹ دو ہزار انیس پاس ہونے کے بعد کئی این جی اوز پر پابندی عائد کردی گئی،این جی اوز نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب زدگان کی امداد و بحالی شدید متاثر ہے،
دو ہزار پانچ اور دو ہزار دس میں این جی اوز کا کام اب کے سامنے ہے،ایدھی فاؤنڈیشن جیسی تنظیمیں نہ ہوتیں تو اتنا کام بھی نہ ہوجاتا۔پائلر کے کرامت علی نے کہا کہ بہت بڑی تباہی سے نمٹنے کے لیے بہت کم وسائل کے ساتھ کام کیا جارہا ہے
،ریاست بے زمین ہونے والے کسانوں کو زمین الاٹ کرے،ملک میں بے روزگاری بڑے پیمانے پر ہونے والی ہے ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے قاضی نذر نے کہا کہ سندھ میں چار سو سے زائد اموات ہوچکی ہیں،اسی خواتین اور ایک سو چونتیس بچے بھی شامل ہیں،خواتین اور بچوں پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے،لاکھوں حاملہ خواتین کو بھی امداد کی ضرورت ہے،حکومت کو شرم آنی چاہیے۔