عمران خاں کی مقبولیت‘ لوگوں کی احتجاج میں شرکت اور جوش و خروش چیخ چیخ کر اعلان کررہا ہے کہ ۔۔۔۔ سینئر صحافی کی لانگ مارچ کے حوالے سے پیشگوئی
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار سینیٹر (ر) طارق چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔عمران خاں نے 25مئی یعنی جمعرات کے دن سے نئے انتخابات کا مطالبہ لے کر تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے‘ وہ تیس لاکھ لوگوں کے ساتھ اسلام آباد پہنچنا چاہ رہا ہے‘ جس طرح اور بے ساختہ پوری
قومی خصوصاً نوجوان خواتین و حضرات اس کی آواز پر لبیک کہہ رہے‘10مئی کے احتجاج اور جلسوں میں شرکا کا جوش و خروش بتا رہا ہے کہ پرامن ماحول میسر ہو جیسا کہ عمران خاں نے مولانا فضل الرحمن کو دیا تھا تو تیس لاکھ لوگ واقعی پہنچ سکتے ہیں لیکن اسلام آباد اس کی سڑکیں اور میدان اتنے لوگوں کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔گھبرائی ہوئی کمزور حکومت‘ عمران خاں کی طرح کھلے دل سے ان کے احتجاج قبول نہیں کر سکتی۔ 1۔ عمران خاں کی مقبولیت‘ لوگوں کی احتجاج میں شرکت‘ جوش و خروش کی یہ منفرد مثال ہے‘اس سے پہلے ایسا بے ساختہ‘وسیع اور
پرامن احتجاج کبھی دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ اس کے بارے میں کبھی سنا بھی نہیں‘پاکستان میں بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک اور ایران میں شاہ ایران کے خلاف امام خمینی کا انقلاب غیر معمولی واقعات ہیں لیکن ان دونوں واقعات میں شرکاء کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی نہ ہی وہ حالیہ واقعات کی وسعت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔پاکستان کے ہر شہر‘ دیہات اور قصبے میں کروڑوں کی تعداد میں لوگ نکل اٹھے ہر طرف رنگا رنگ میلے کا سماں تھا‘مسلم دنیا کے ساتھ سارے یورپ‘ امریکہ‘ آسٹریلیا ‘ نیوزی لینڈ‘ جاپان‘ صومالیہ‘ جنوبی افریقہ جیسے ملکوں کے ہر شہر میں پاکستانیوں اور ان کے ساتھ مقامی لوگوں نے پرامن احتجاج میں شرکت کی‘ان کا جوش و جذبہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ 2۔عمران خاں کی قیادت میں احتجاج کی کامیابی کا انحصار اسلام آباد پہنچنے سے زیادہ اس کی وسعت اور اثر پذیری پر ہے۔
اس کی مثال ہم پی این اے کی تحریک اور ایوب خاں کے خلاف ہونے والے کامیاب احتجاج سے دے سکتے ہیں۔ان دونوں کامیاب تحریکوں کا رخ دارالحکومت اسلام آباد کی طرف نہیں تھا‘ بلکہ پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا مرکز لاہور میں تھا او پاکستان کے چاروں صوبوں اور ہر شہر میں یکساں جلسے جلوس اور احتجاج کے روز مرہ معمول نے انتظامیہ کو تقسیم کر کے تھکا دیا بلکہ بے بس کر دیا تھا۔ اگرچہ عمران خاں کا رخ اسلام آباد کی طرف ہے لیکن حکومت یا انتظامیہ میں کوئی نئی سوچ اور الگ طرح کے انتظامات کا اشارہ نہیں ملتا۔حکومت پٹرول پمپ بند کر دے گی‘
ٹرانسپورٹر کو بسیں دینے سے منع کر دیا جائے گا‘ موٹر وے اور بڑی شاہراہیں سیل کر دی جائیں گی۔پشاور کی طرف سے اٹک کا پل بڑے بڑے کنٹینر لگا کر بند کر دیا جائے گا‘ سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی جائیں گی‘ ہر طرح کی ٹریفک سائیکل تک گزرنے کا راستہ نہیں چھوڑا جائے گا‘ انٹر نیٹ سروس اور ٹیلی فون سروس بھی معطل ہو گی وہ کام جو عمران خاں کو کرنا ہی یعنی کاروبار حکومت کا چلنا ناممکن بنا دے وہ کام حکومت از خود کرنے جا رہی ہے۔پہیہ جام ہو گا سرکاری دفاتر بند رہیں گے‘ شاہراہوں پر ہو کا عالم ہو گا۔اگر حکومت یہ سب کرنے میں کامیاب ہو گی
تو کراچی سے خیبر تک ہر شہر اور قصبے میں اتنے بڑے احتجاجی جلوس ہونگے جنہیں چشم فلک نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ پاکستان کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت‘ دنیا کے سب سے بڑے احتجاج کا سامنا کرنے جا رہی ہے۔اگر اس احتجاج کا فوری نتیجہ نہ نکلا اور اس کا دورانیہ ایک ہفتے سے زیادہ ہوا تو پاکستان کی سیاست‘ معیشت اور انتظامیہ جو نقصان ہو گا سو ہوگا۔یہ تحریک قیادت کے نہ چاہتے ہوئے بھی بدامنی کی راہ اختیار کر سکتی ہے۔یہ خراب رویہ حکمران، ممبران اسمبلی اور وزراء کے گھروں کا رخ کریگا۔تب اتحادی بھاگ کھڑے ہونگے اور…کچھ بدلنا ہو گا۔