اڑتے وقت وہ کہنے لگا
حضرت جنید بغدادیؒ کے پاس کسی نے ایک پرندہ بطور تحفہ بھیجا‘ آپ نے اسے قبول فرما کر پنجرے میں بند کردیا اور کچھ مدت اپنے پاس رکھ کر ایک دن اسے آزاد کردیا۔ کسی نے پوچھا:’’حضرت آپ نے اسے آزاد کیوں کردیا؟‘‘ آپؒ نے فرمایا:’’مجھ سے اس پرندے نے بڑی منت سے کہا تھا اے جنید! افسوس ہے کہ
تُو تو اپنے دوستوں سے ملاقات کا لطف اٹھائے اور مجھے میرے دوستوں سےملنے سے دور رکھے اور پنجرے میں بند رکھے۔‘‘مجھے اس پر رحم آیا اور میں نے اسے چھوڑ دیا‘ اڑتے وقت وہ کہنے لگا:
’’پرندہ یا جانور تک اللہ کےذکر میں مصروف رہتا ہے آزاد رہتا ہے اور جہاں اس پر غفلت طاری ہوتی ہے قید میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘اے جنید! میں یادِ الٰہی سے صرف ایک دن غافل رہا تھا
جس کی سزا میں مجھے پنجرے کی سخت سزا بھگتنا پڑی۔ ہائے ان لوگوں کا کیا ہوگا جو اکثر اوقات اللہ کے ذکر سے غافل رہتے ہیں۔ اے جنیدؒ میں آپ کے سامنے پکا وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ذکر
الٰہی سے غافل نہیں رہوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پرندہ اڑ گیا۔
پھروہ پرندہ حضرت جنید بغدادیؒ کی زیارت کے لیے آتا اور ان کے ہمراہ دستر خوان پر دانے وغیرہ بھی کھایا کرتا‘ جب حضرت جنید بغدادیؒ کی وفات ہوئ تو یہ پرندہ بھی زمین پر گر کر اسی وقت مرگیا،
اسلیئے لوگوں نے جنید بغدادی کے قریب اس پرندے کو دفن کیا بعد وصال کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: ’’آپ کا کیا حال ہے؟‘‘انہوں نے جواب دیا: ’’چونکہ اس پرندے پر میں نے رحم کیا تھا‘ اس لیے اللہ نے مجھ پر بھی رحم کیا