in

مجھے امی کی بہت یاد آتی ہے، اس لیے میں بھی ان کے پاس جا رہا ہوں ۔۔ جامشورو یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم نے ماں کی یاد میں اپنی جان دے دی

مجھے امی کی بہت یاد آتی ہے، اس لیے میں بھی ان کے پاس جا رہا ہوں ۔۔ جامشورو یونیورسٹی کے ایک طالبِ علم نے ماں کی یاد میں اپنی جان دے دی

ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کی موجودگی اس کی اولاد کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ ماں جب تک بچے کا ہاتھ پکڑ کر چلتی ہے، بچہ اس وقت تک سب سے زیادہ محفوظ ہوتا ہے۔ لیکن جب ماں ہی ہاتھ چھوڑ دے، زندگی سے ساتھ چھوڑ دے تو گھر ویران ہو جاتے ہیں۔ جس گھر میں ماں نہیں ہوتی وہاں احساس، محبت اور اپنائیت کا رشتہ کہیں کھو جاتا ہے۔ ماں کی اہمیت ہر وہ شخص سمجھتا ہے جس نے اپنی ماں کو کھو دیا ہے یا جن کی مائیں بیماری اور تکلیف میں مبتلا ہیں۔ جن کی مائیں حیات ہیں انکو چاہیے کہ اپنی ماؤں کا حد سے زیادہ خیال رکھیں۔ یہ روٹھ جائیں اگر تو زندگی کے سارے رنگ کھو جاتے ہیں۔

کل سے سوشل میڈیا پر ساگر گوپانگ کی تصاویر اور ایک آخری پیغام بہت وائرل ہو رہا ہے۔ ساگر گوپانگ جامشورو یونیورسٹی کا طالبِ علم تھا جو فوٹوگرافر بھی تھا اور وی لاگر بھی۔ یوٹیوبر بھی تھا اور فلم میکنگ کے کام سے وابستہ تھا۔ ساگر وہ لڑکا تھا جو خاموش طبیعت بھی تھا لیکن دوستوں کا دوست تھا۔ اس کی کبھی کسی کے ساتھ نہ تو لڑائی ہوئی اور نہ اس نے کبھی اپنے گھر والوں کو تنگ کیا۔

ساگر بدین کا رہائشی تھا۔ اس نے 14 اپریل کو سحری سے قبل خودکشی کرلی۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے اپنی ڈائری میں ایک پیغام لکھا جس میں لکھا ہوا ہے کہ: ” سب کو میری طرف سے بہت مبارک ہو، میں اس دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں بہت تھک چکا ہوں، مجھے امی کی بہت یاد آتی ہے اور باجی وسیم بھی وہیں ہیں۔ میرے لیے ویسے بھی یہاں اب کچھ نہیں ہے، میں ہر چیز میں ناکام ہوچکا ہوں۔ پڑھائی، فوٹوگرافی، وی لاگنگ، یوٹیوب، فلم میکنگ اور محبت ہر چیز میں ناکام ہوچکا ہوں۔ سنول ریشماں پلیز مجھے معاف کرنا اور ابو آپ بھی مجھے معاف کرنا، مجھے آپ کی بہت یاد آئے گی۔ اس ڈائری میں اپنی کچھ تحریریں چھوڑ کر جا رہا ہوں، ان کو سنبھال کر رکھنا۔ اور میری قبر پر صرف ساگر لکھنا اور کوئی رسومات نہیں کرنا، جب مجھے یہ رسومات نہیں پسند تو ان کو میرے لیے کیا بھی نہ جائے۔ سب خوش رہنا اور میرے اس عمل کا کوئی ذمہ دار نہیں ہے بس مجھ سے امی کے بنا رہا نہیں جاتا۔ میں امی کے پاس جا رہا ہوں۔ ”

ساگر اپنی ماں کو حد سے زیادہ یاد کرتا تھا، اکثر اپنی والدہ کی تصاویر اور پرانی یادیں اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر بھی شیئر کرتا رہتا تھا۔ ساگر کے دوستوں کے مطابق وہ کسی سے کچھ نہیں کہتا تھا، بس اپنے کام کو لے کر حد سے زیادہ سوچتا تھا، اس کے فن کی کسی نے قدر نہ کی۔

اس کے دنیا سے جانے کے بعد ایک پیغام بھی بہت تیزی سے شیئر کیا جا رہا ہے: ” کبھی کبھی ایک شخص صرف ایک ہمدرد کان چاہتا ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ کوئی اس سے بات کرے۔ ہمیں صرف چند ایسے دوستوں کی ضرورت ہے جو ہمارے الفاظ کے اظہار سے پہلے ہمیں سمجھ جائیں۔ ”

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

والدہ نے میرا ہاتھ تھاما، مگر میں اب اکیلا ہو گیا ہوں ۔۔ بلقیس ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے

میرا اور میرے بچوں کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں.. جمائما گولڈ اسمتھ نے تنگ آ کر حامد میر کو مزید کیا جواب دیا؟