تاکہ ظفراللہ جمالی کو یاد رہے کہ اصل طاقت ہم ہیں اور ہم اسے کسی بھی وقت اتار سکتے ہیں ۔۔۔ ایک بار قومی اسمبلی میں ظفراللہ جمالی کو صرف چند ووٹوں سے کیوں کیسے اور کس نے جتوایا ؟ اعزاز سید کے انکشافات
لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار و صحافی اعزاز سید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔مرحوم پولیس افسر اسرار احمد نے مجھے یہ واقعہ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل مارچ 2017 میں لاہور میں سنایا تھا جسے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں تاریخی فتح کے بعد قارئین کی
دلچسپی کیلئے یہاں بیان کررہا ہوں۔21نومبر 2002کو پارلیمنٹ کا اجلاس جاری تھا۔ طاقتور فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ملک میں عام انتخابات منعقد کروائے تھے اور اب نئے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے پارلیمنٹ کے ایوان میں کارروائی جاری تھی۔مسلم لیگ ق نے اس وقت ملک بھر میں اکثریت حاصل کی تھی اور میر ظفر اللہ جمالی مسلم لیگ ق کے نامزد وزیراعظم تھے
جبکہ متحدہ مجلس عمل نے مولانا فضل الرحمٰن اور پیپلزپارٹی نے شاہ محمود قریشی کو وزارتِ عظمیٰ کا امیدوار نامزد کررکھا تھا۔ وزیراعظم کے انتخاب کیلئے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایوان کے اندر گھنٹیاں بجوائیں۔اعلان کیا گیا کہ ارکانِ قومی اسمبلی اپنے اپنے امیدوار کے حق میں دائیں اور بائیں جانب والی گیلریوں میں جائیں تاکہ ارکانِ قومی اسمبلی کی گنتی عمل میں لائی جا سکے اور پتہ چلے کہ کون سے امیدوار کو لیڈر آف دی ہاؤس یا وزیراعظم بننے کیلئے کتنے ارکان نے ووٹ دیا ہے
؟مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کے ارکان اس عمل سے قبل چار چار اور پانچ پانچ کی ٹولیوں میں ایوان سے ملحقہ ایک گیلری میں جاتے جہاں راولپنڈی میں تعینات سینئر پولیس افسر اسرار احمد، ایک خفیہ ادارے کے طاقتور افسر کے ساتھ موجود تھے۔ منتخب ارکان اسمبلی مذکورہ طاقتور افسر سے پوچھتے کہ وہ اسپیکر کی طرف سے گھنٹیاں بجنے کے بعد کون سی گیلری میں جائیں؟اس وقت کی کنگز پارٹی کے ارکان پر یہ بات واضح تھی کہ میر ظفر اللہ جمالی کو ہی ووٹ دینے ہیں مگر آخری وقت پر بھی انہیں مذکورہ طاقتور افسر سے ہدایت حاصل کرنے کا کہا گیا۔ ارکان آتے،
انہیں جمالی کے حق میں ووٹ دینے کیلئے کہا جاتا اور وہ متعلقہ گیلری میں چلے جاتے۔ جب ارکان پارلیمنٹ کا آخری گروپ ہدایت لینے آیا تو مذکورہ افسر نے ایک رکن کو ہدایت کی کہ وہ جمالی کو ووٹ دینے متعلقہ گیلری میں جائے اور باقی تین یا چار کو ہدایت کی گئی کہ وہ جمالی کے مخالف کیمپ میں چلے جائیں۔یہ دیکھ کر مذکورہ افسر کے ساتھ بیٹھے پولیس افسر اسرار احمد نے پوچھا کہ ’’آپ نے ایسا کیوں کیا؟ اس طرح تو آپ کے اپنے منتخب کردہ جمالی کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ ملے گا‘‘۔
اسرار احمد کے اس سوال کے جواب میں مذکورہ طاقتور افسر نے تاریخی فقرہ کہا ’’ہم نے ایسا اس لئے کیا کہ جمالی کو یاد رہے کہ وہ اصل میں وزیراعظم نہیں، ہم اسے کسی بھی وقت اتار سکتے ہیں۔اگر وہ چوں چراں کرے بھی تو مزاحمت کے قابل نہ ہو‘‘۔ مطلب واضح تھا کہ سیٹرھی لگانے والوں نے سیڑھی کھینچنے کا بھی بھرپور بندوبست کررکھا تھا۔ اقتدار دینے والے سیڑھی کھینچنے کا بندوبست سیڑھی دیتے ہوئے ہر بار کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی ماضی کے وزرائے اعظم کی طرح اقتدار سیڑھی لگا کردیا گیا۔
ماضی میں بھی جو وزیراعظم ذرا سا بااختیار ہوا، اس کی سیڑھی کھینچ کر اسے دھڑام سے نیچے پھینک دیا گیا۔سینیٹ میں یوسف رضا گیلانی کی حکومتی مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ پر فتح سے عمران خان کو نیچے تو نہیں گرایا گیا لیکن جھٹکا ضرور دیا گیا ہے۔ سچ بات یہ ہے کہ مجھے عبدالحفیظ شیخ کی فتح کا بھرپور یقین تھا
اور اسی حوالے سے میں نے 27فروری 2021کو کالم بھی لکھا۔اسی دوپہر میری ایک ریٹائرڈ بریگیڈئیر دوست سے ملاقات ہوئی، ان کا ہونہار بیٹا بھی ہماری ملاقات میں موجود تھا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا ، اعزاز بتاؤ کون جیتے گا ؟ ’’عبدالحفیظ شیخ‘‘ میں نے جواب دیا۔ بولے ’’مجھے سے شرط لگا لو یوسف رضا گیلانی پانچ یا چھ ووٹوں کے مختصر مارجن سے جیت جائیں گے‘‘۔ریٹائرڈ بریگیڈئیر صاحب کے دعوے کو میں نے یہ کہہ کررد کردیا کہ جناب اپوزیشن کے ارکانِ قومی اسمبلی کو عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ دینے کیلئے فون آرہے ہیں۔ فون کرنے والے وہی لوگ ہیں جنہوں نے عمران خان کو اقتدار کیلئے سیٹرھی فراہم کی۔ اس کے جواب میں مجھے میرے دوست نے ایسی بات بتائی
کہ میرا سر چکرا گیا۔پارلیمنٹ میں ان دنوں اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ کوئی بھی اہم قانون سازی کرنا ہوتو کچھ عجیب و غریب لوگ وہاں آدھمکتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر اسپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے دفاتر کو اپنا مرکز بنا لیتے ہیں۔ قانون سازی کیلئے ارکان قومی اسمبلی و پارلیمنٹ کی گنتی بھی کی جاتی ہے اور ووٹ بھی ڈلوائے جاتے ہیں۔3
مارچ 2021کو میں سارا دن پارلیمنٹ ہاؤس میں موجود تھامگر حیران کن طورپروہاں وہ عجیب وغریب لوگ موجود نہیں تھے جو اکثر اہم مواقع پر موجود ہوتے ہیں۔ اس روز قومی اسمبلی وسینیٹ میں اپوزیشن چیمبرز کے اندر بیٹھے اکثر ارکانِ پارلیمنٹ کا بھی خیال تھا کہ عبدالحفیظ شیخ باآسانی جیت جائیں گے۔اپوزیشن کے ایک رہنما رانا تنویرحسین کو تویہ بھی خدشہ تھا کہ حکومت کو 191ووٹ ہی نہ پڑجائیں۔ اس شام جونہی یوسف رضاگیلانی کی فتح کا اعلان ہوا، مجھ سمیت سب حیرانی کا شکار ہوگئے۔ مجھے رہ رہ کر ریٹائرڈ بریگیڈئیر دوست کا دعویٰ یاد آنے لگا۔
یوسف رضاگیلانی کی جیت نے پہلی بار وزیراعظم عمران خان کے با اعتماد اقتدار کو دھچکا لگایا ہے۔ وہ شاید قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن عمران خان کیلئے اقتدار کی سیٹرھی لگانے والوں نے بتا دیا ہے کہ وہ سیڑھی کھینچنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اقتدار کی سیڑھی لگانے اور کھینچنے والے ہرقسم کے احتساب سے مُبرّا ہیں