حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا سے جب بھی مانگو تو مقدر مانگو عقل نہیں کیونکہ مزید جانیے اس آرٹیکل میں
! خدا سے جب بھی مانگو تو مقدر مانگو عقل نہیں کیونکہ میں نے بہت سے عقل والوں کو مقدر والوں کے در پر دیکھا ہے۔ نصیحت دوسرے کے حال پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ جو آدمی صبر اختیار کرتا ہے وہ کامیابی پاتا ہے جو جلد با زی کرتا ہے
وہ ٹھو کر کھاتا ہے۔ قریبی رشتہ داروں کی عداوت بچھوؤں کے ڈسنے سے زیادہ درد پہنچاتی ہے۔ سب سے پہلی عباد ت یہ ہے کہ انسان مصیبت میں صبر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کا منتظر رہے۔ مصائب کا مقابلہ صبر سے اور نعمتوں کا حفاظت شکر سے کرو۔
اے اللہ! ہمارے دلوں کو منافقت سے پاک فرما اور ہماری اعمال کو دکھاوے سے محفوظ رکھ اور ہماری زبانوں کو جھوٹ سے با زرکھ۔ ہماری آنکھوں کوخیانت سے محفوظ فرما بے. شک تو آنکھوں کی خیانت اور دلو ں میں چھپے بھید جانتا ہے۔ دنیا والو ں پر اپنا دکھ ظاہر مت کرو، کیونکہ وہ وہاں چوٹ ضرور مارتے ہیں جہاں پہلے سے زخم ہو۔ لوگ ہمارے اندر ہمارا دکھ تلاش نہیں کرتے، ان کو اس تماشے کی کھوج ہوتی ہے
جو ہمارے ساتھ ہوا۔ ایک شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا اور کہنے لگا؟ یا علی! آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر ہزاروں نعمتیں انسانوں کے لیے پیدا کیں، تو یہ دکھ، تکلیف اللہ تعالیٰ نے کیوں پید ا کی؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے بندے شکر کرو کہ اللہ تعالیٰ نے دکھ کو پیدا کیا، اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت دکھ ہے۔ تو وہ شخص کہنے لگا؟ یا علی دکھ بھی نعمت ہے؟ تو حضرت علی فرمانے لگے،
اے شخص! دکھ انسانوں کو مضبوط بناتا ہے اور خوشیاں انسان کوکمزور کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس انسان کو نوازنا چاہتا ہے. عظیم مقام دینا چاہتا ہے تو اسے تکلیف، دکھ اور درد کی راہ بخشتا ہے۔ تاکہ وہ مضبوط بن بن کر اتنا سیکھ لے کہ اپنی منز ل تک جا پہنچے۔
یاد رکھنا! انسان کا دکھ انسان کو سیکھانے کے لیے ملتا ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ انسان اس دکھ کی وجہ سے روتا رہتا ہے انسان دکھ اور در د کی وجہ سے کتنا بھی روتا ہے لیکن ختم نہیں ہوگا۔ کیونکہ دکھ انسان کو رلانے کے لیے نہیں بلکہ انسان کو سیکھانے کے لیے آیا ہے۔ جب تم اس دکھ سے سیکھ لو گے
جو وہ تمہیں سیکھانا چاہتا ہے تو تمہارا دکھ خود بخود ختم ہوجائےگا۔ زندگی اتنی دکھی نہیں کہ مرنے کوجی چاہے۔ بس لوگ اتنے دکھ دیتے ہیں کہ جینے کو دل نہیں کرتا۔ دکھ انسان کو یاریت کی دیوار کی طرح ڈھانپ دیتا ہے، یاچٹان کی طرح کھردرا اور سخت بنا دیتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کو جہاں سے پیار کی سب سے زیادہ امید ہوجاتی ہے اسے سب سے زیادہ دکھ بھی وہیں سے ملتا ہے.