حضرت عمرؓ کا حضرت علیؓ کو بوسہ دینا
ایک آدمی پریشان روتا ہوا امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سخت آواز میں پکار کر کہنے لگا: یا امیر المومنین!
میری مدد فرمائیں۔ یا امیرالمومنین! میری مدد فرمائیں۔ حضرت عمرؓ نے متحیر ہو کر فرمایا: ارے! کس کے خلاف تیری مدد کروں؟ اس آ دمی نے حضرت علیؓ کو اپنی نظر کا نشانہ بناتے ہوئے کہا:
اس آدمی کے خلاف جو آپؓ کے برابر بیٹھا ہوا ہے، حضرت عمرؓ نے حضرت علیؓ کی طرف دیکھا، پھر فرمایا:اے ابوالحسن! اٹھو اور اپنے فریق کے برابر بیٹھ جاؤ۔
حضرت علیؓ اٹھے اور اپنےفریق مخالف کے برابر بیٹھ گئے، دونوں نے باہمی مباحثہ کیا پھر وہ شخص جو صاحب استغاثہ تھا واپس چلا گیا اور حضرت علیؓ اپنی جگہ پر امیر المومنین کے برابر آ کر بیٹھ گئے۔
حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کا چہرہ متغبر ہے۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا: اے ابوالحسن: کیا بات ہے آپ کا رنگ کیوں بدلا ہواہے؟ کیا آپؓ کو اس واقعہ سے ناگواری ہوئی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ہاں، حضرت عمرؓ نے پوچھا: آپؓ کو کس بات پر ناگواری ہوئی؟
حضرت علیؓ نے فرایا کہ آپؓ نے مجھے میرے مخالف فریق کی موجودگی میں میری کنیت سے یاد کیا اور کہا کہ اے ابو الحسن! اٹھو!
آپؓ نے یوں کیوں نہیں کہا: اے علیؓ اٹھو! اپنے فریق مخالف کے ساتھ بیٹھ جاؤ؟ فاروقِ اعظمؓ کا چہرہ دمک اٹھا، چہرہ پر خوشی کے آثار نمایاں ہو گئے،
حضرت علیؓ کو گلے لگایا اور یہ کہتے ہوئے ان کو بوسہ دینے لگے: میرے باپ تم پرفدا ہوں، تمہاری وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی اور تمہاری وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا فرمائی