اے اللہ مجھے دین کی سمجھ عطا فرما
گہری سمجھ عطا کر دیتا ہے-
مَنْ يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ
اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا کر دیتا ہے
اَلْقُرْآن
(آل عمران، 3/ 7)
وہی ہے جس نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جس میں سے کچھ آیتیں محکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں وہی (احکام) کتاب کی بنیاد ہیں اور دوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں، سو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے اس میں سے صرف متشابہات کی پیروی کرتے ہیں (فقط) فتنہ پروری کی خواہش کے زیراثر اور اصل مراد کی بجائے من پسند معنی مراد لینے کی غرض سے، اور اس کی اصل مراد کو اﷲ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور علم میں کامل پختگی رکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے، ساری (کتاب) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہے، اور نصیحت صرف اہلِ دانش کو ہی نصیب ہوتی ہے۔
(التوبة، 9/ 122)
اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے مسلمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
(الأنعام، 6/ 125)
پس اﷲ جس کسی کو (فضلاً) ہدایت دینے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ فرما دیتا ہے اور جس کسی کو (عدلاً اس کی اپنی خرید کردہ) گمراہی پر ہی رکھنے کا ارادہ فرماتا ہے اس کا سینہ (ایسی) شدید گھٹن کے ساتھ تنگ کر دیتا ہے گویا وہ بمشکل آسمان (یعنی بلندی) پر چڑھ رہا ہو اسی طرح اﷲ ان لوگوں پر عذابِ (ذّلت) واقع فرماتا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔
(الزمر، 39/ 22)
بھلا، اللہ نے جس شخص کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا ہو تو وہ اپنے رب کی طرف سے نور پر (فائز) ہوجاتا ہے، (اس کے برعکس) پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہوکر) سخت ہوگئے، یہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔
اَلْحَدِيْثُ
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اﷲ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی گہری سمجھ عطا فرما دیتا ہے، اور میں تو تقسیم کرنے والا ہوں جبکہ عطا اللہ تعاليٰ کرتا ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعاليٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے اور اسے اپنی ہدایت الہام فرما دیتا ہے۔
اسے امام بزار نے روایت کیا۔
حضرت معاویہ رضیاللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! جوکچھ تو عطا کرنا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو کچھ تو روکنا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا اور کسی دولت مند کی دولت و امارت اس کو تیری بارگاہ میں نفع نہیں پہنچا سکتی (بلکہ تیرا فضل و رحمت اور عملِ صالح ہی موجبِ نجات ہے)۔ اللہ تعاليٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین میں تفقہ (سمجھ بوجھ) عطا فرما دیتا ہے۔