in

’’اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہو، وہ اقتدار کے ایوانوں میں راج کرتا ہے‘‘ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ بالاخر گتھی سلجھا دی گئی

’’اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہو، وہ اقتدار کے ایوانوں میں راج کرتا ہے‘‘ اس بات میں کتنی سچائی ہے؟ بالاخر گتھی سلجھا دی گئی

لاہور(ویب ڈیسک) پاکستانی سیاست میں ایک خیال عام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہو، وہ اقتدار کے ایوانوں میں راج کرتا ہے، حکومت اس کی ہوتی ہے اور کوئی بھی چال اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اور جب اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اٹھ جائے تو پھر کوئی بھی تدبیر اس کے کام نہیں آسکتی۔

اپوزیشن جماعتوں کا یہی الزام رہا ہے کہ اسٹیلبشمنٹ کی آشیرباد سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی آسان رہتی ہے۔ تحریک انصاف کے نواز لیگ حکومت کے خلاف دھرنے کو بھی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کا گٹھ جوڑ قراردیا گیا۔ اب تک نواز لیگ کا یہی الزام ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف تحریک میں تحریک انصاف کو خفیہ ہاتھوں کی آشیرآباد حاصل تھی۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل اس قسم کے الزامات ڈھکے چھپے الفاظ اور اشاروں کی زبانوں میں لگائے جاتے تھے۔ لیکن 2018 کے انتخابات میں جب تحریک انصاف کو کامیابی ملی تو اپوزیشن جماعتوں کی زبان سے کھل کر اس رائے کا اظہار کیا جانے لگا کہ تحریک انصاف کو عوام کے ووٹوں سے نہیں آشیرباد سے اقتدار دلایا گیا ہے۔ اور عمران خان کو الیکٹیڈ نہیں سلیکٹیڈ قرار دیا گیا۔ پاکستانی سیاست کی ڈکشنری میں سلیکٹرز کا نیا لفظ شامل ہوا۔تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ساری اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر آگئیں۔ ماضی میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک دستر خوان پر بیٹھ گئے۔ اسی عمران خان کے بغض میں مریم نواز پہلی مرتبہ لاڑکانہ گئیں اور بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کی۔ تحریک انصاف کے اقتدار کو انڈین فلم ’’نائیک‘‘ سے جوڑا گیا جس میں انیل کپور حکومت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو پوری اپوزیشن اس کے خلاف ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے ’’عمران خان کو ہٹانے‘‘ پر متفق ہیں۔

لیکن یہ اتفاق نہیں ہوپارہا کہ عمران خان کو ہٹانا کیسے ہے اور اس کے بعد کیا طریقہ اپنانا ہے۔پاکستانی سیاست میں ایک خیال عام ہے کہ اسٹیبلشمنٹ جس کے ساتھ ہو، وہ اقتدار کے ایوانوں میں راج کرتا ہے، حکومت اس کی ہوتی ہے اور کوئی بھی چال اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اور جب اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اٹھ جائے تو پھر کوئی بھی تدبیر اس کے کام نہیں آسکتی۔اپوزیشن جماعتوں کا یہی الزام رہا ہے کہ اسٹیلبشمنٹ کی آشیرباد سے ہی اقتدار کے ایوانوں تک رسائی آسان رہتی ہے۔ تحریک انصاف کے نواز لیگ حکومت کے خلاف دھرنے کو بھی اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کا گٹھ جوڑ قراردیا گیا۔ اب تک نواز لیگ کا یہی الزام ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف تحریک میں تحریک انصاف کو خفیہ ہاتھوں کی آشیرآباد حاصل تھی۔ تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے قبل اس قسم کے الزامات ڈھکے چھپے الفاظ اور اشاروں کی زبانوں میں لگائے جاتے تھے۔ لیکن 2018 کے انتخابات میں جب تحریک انصاف کو کامیابی ملی تو اپوزیشن جماعتوں کی زبان سے کھل کر اس رائے کا اظہار کیا جانے لگا کہ تحریک انصاف کو عوام کے ووٹوں سے نہیں آشیرباد سے اقتدار دلایا گیا ہے۔ اور عمران خان کو الیکٹیڈ نہیں سلیکٹیڈ قرار دیا گیا۔ پاکستانی سیاست کی ڈکشنری میں سلیکٹرز کا نیا لفظ شامل ہوا۔تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے کے بعد ساری اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر آگئیں۔ ماضی میں ایک دوسرے کی مخالف جماعتیں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ ایک دستر خوان پر بیٹھ گئے۔

اسی عمران خان کے بغض میں مریم نواز پہلی مرتبہ لاڑکانہ گئیں اور بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کی۔ تحریک انصاف کے اقتدار کو انڈین فلم ’’نائیک‘‘ سے جوڑا گیا جس میں انیل کپور حکومت بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو پوری اپوزیشن اس کے خلاف ہوجاتی ہے۔ ابھی بھی ملک کی تمام سیاسی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈے ’’عمران خان کو ہٹانے‘‘ پر متفق ہیں۔ لیکن یہ اتفاق نہیں ہوپارہا کہ عمران خان کو ہٹانا کیسے ہے اور اس کے بعد کیا طریقہ اپنانا ہے۔ملک میں ایک بار پھر متبادل نظام کے حوالے سے بحث شروع ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر صدارتی نظام کے حوالے سے بحث کی جارہی ہے، اور اس بحث کو چھیڑ کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ عوام چاہتے کیا ہیں۔ اگر فوری عام انتخابات کی جانب نہیں جایا جاتا تو کیا عوام متبادل نظام حکومت کو تسلیم کریں گے۔اپوزیشن جماعتیں اسی انتظار میں ہیں کہ حکومت اب گئی کہ تب گئی۔ جبکہ حکومت کا خیال ہے کہ پانچ سال پورے کرنے ہیں، اپوزیشن جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگالیں حکومت کو گرایا نہیں جاسکتا۔وزیراعظم عمران خان نے اتوار کو عوام کی ٹیلی فون کالز سنیں، سوالوں کے جواب دیے اور اس دوران وہ کافی جارحانہ انداز میں نظر آئے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی حکومت میں ہوں تو خاموش ہوں، اگر حکومت سے نکل گیا تو زیادہ خطرناک ہوجاؤں گا اور اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔زیراعظم کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف موجودہ دورِ حکومت کی مدت پوری کرے گی اور اگلی باری بھی تحریک انصاف کی ہوگی۔وزیراعظم کی اس تقریر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ کچھ لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم یہ کس کو مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ حکومت سے نکل گئے تو زیادہ خطرناک ہوں گے؟ ویسے تو عمران خان کا اشارہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف ہی ہے۔ اگر وہ حکومت سے باہر آگئے تو پھر وہی دھرنے دھرنے کا کھیل شروع ہوجائے گا۔ لیکن اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو کسی اور تناظر میں دیکھ رہی ہیں۔

ایک خیال یہ بھی ہے کہ عمران خان حکومت سے باہر آئے تو اس پوزیشن میں رہ کر وہ پہلے والے عمران خان نہیں رہیں گے۔ عوام نے اس وقت ملک میں تبدیلی کےلیے تحریک انصاف کا ساتھ دیا اور وہ تبدیلی عوام کو پسند نہیں آئی۔ مریم نواز نے عمران خان کے اس بیان پر تبصرے میں کہا ہے کہ عمران خان کا یہ بیان گیدڑ بھبھکیوں کے سوا کچھ نہیں۔ جس دن آپ اقتدار سے نکلے عوام شکرانے کے نفل پڑھیں گے۔حکومت اقتدار کے نشے میں ہے تو اپوزیشن جماعتیں اقتدار کا نشہ دوبارہ حاصل کرنے کی جنگ لڑ رہی ہیں اور اس میں غریب عوام پس رہے ہیں۔اس بات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کہ عمران خان نے اقتدار سے قبل جو سبز باغ عوام کو دکھائے تھے وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے۔ بے روزگاری، مہنگائی، غربت کے خاتمے کی نوید سنائی گئی، قوم کا لوٹا پیسہ واپس لانے، کڑا احتساب کرنے، غریبوں کےلیے گھر کا وعدہ کیا گیا۔ لیکن چار سال ہونے کو ہیں تمام تدابیر الٹی ہوگئی ہیں۔ جو سازش حکومت کے خلاف اپوزیشن کو کرنی چاہیے تھی، حکومت مخالف ماحول بنانے کے لیے اپوزیشن کو جو منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی وہ کام خود حکومت نے اپنے ہاتھوں سے کر ڈالا۔

عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت میں کن کن وزرا کو تبدیل کیا جارہا ہے، وزیراعظم کتنے بجے اٹھتے ہیں، کتنے بجے سوتے ہیں، حکومت اور اپوزیشن میں کیا چل رہا ہے۔ عوام کو تو پٹرول سستا ملنا چاہیے، تین کی وقت کی روٹی ملے، بجلی اور گیس کا بل سستا آئے۔ عوام زندگی آسان چاہتے ہیں لیکن موجودہ دور میں مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا ہے۔صبح اٹھیں تو گیس نہیں، بجلی نہیں۔ جیب اجازت نہیں دیتی کہ گاڑی میں پٹرول ڈالا جاسکے۔ سی این جی اسٹیشنز پر گیس نہیں۔سیاسی حلقوں میں اس ساری صورتحال پر جاری بحث میں یہ خیال کیا جارہا ہے کہ لانے والے بھی بچانے کی پوزیشن میں نہیں۔ عوامی رائے کو اگر جاننا ہے تو حجام کی دکان، گاڑی کی ورکشاپ، لاری اڈے، بس میں سفر کرکے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ عوام کیا سوچ رہے ہیں۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں عوام حکومت سے نالاں ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے بھی اپنے کیے پر پچھتا رہے ہیں۔اپوزیشن جماعتیں اس بار حکومت کے خلاف تحریک کو آخری راؤنڈ قرار دے رہی ہے۔ پیپلزپارٹی نے فروری میں حکومت کے خلاف مارچ کا اعلان کیا ہے اور پی ڈی ایم نے مارچ میں مہنگائی مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ سیاسی حلقوں میں مارچ کا مہینہ اہم قرار دیا جارہا ہے اور حکومت کو بھی یہ اندازہ ہوچکا ہے کہ حکومتی اقدامات سے عوام مطمئن نہیں۔ پارلیمانی راہداریوں میں یہ بحث کی جارہی ہے کہ مارچ تک اگر حکومت کو دباؤ میں لایا گیا تو وزیراعظم عمران خان کو اسمبلیاں توڑنے کےلیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ دوسری طرف حکومت جون تک وقت گزارنے کی۔کوششوں میں مصروف ہے۔ حکومتی حلقوں کے مطابق حکومت جون میں بجٹ پیش کرنا چاہتی ہے، اس کے بعد سیاسی صورتحال سے نمٹا جائے گا۔ لیکن اپوزیشن حکومت کو جون تک کا وقت نہیں دینا چاہتی۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ خیال ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ اب حکومت کے سر پر نہیں رہا اور اس بار حکومت پر وار کیا گیا تو وہ خالی نہیں جائے گا۔ اسی لیے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بھی تجویز زیر غور ہے۔خیبرپختونخوا کے بلدیاتی انتخانات میں جیسے تحریک انصاف کو تحریک انصاف سے شکست ہوئی، ایسے ہی تحریک انصاف کے اندر بھی لاوا ابلنا شروع ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف میں بہت سے نور عالم بننے کےلیے تیار بیٹھے ہیں اور انتظار صرف مناسب وقت کا ہے۔دیکھنا ہے کہ تحریک انصاف کی نَیا ڈبونے میں کون کون سے ہاتھ سامنے آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس بار حکومت سے باہر رہ کر کیا عمران خان خطرناک ثابت ہوں گے؟ کیونکہ حکومت میں رہ کر وہ اپوزیشن کےلیے کوئی خطرہ نہیں بن سکے۔

Written by admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

ہوٹل میں بھوتوں کی موجودگی کا پتہ چلنے پر 2 نوجوان لڑکیاں بھی وہاں پہنچ گئیں لیکن پھر رات کو کیا کچھ ہوا؟ جانئے

’’ مجھے اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کسی کی جان نہ لے لو ں ۔۔۔!!!‘‘ سینکڑوں پولیس افسران کو ختم کرنے والا فہیم کمانڈو کون تھا اور یہ ایسا کیوں کرتا تھا؟