پاکستانی ٹیم1999، 1996 اور2003 کے ورلڈ کپ جیت سکتی تھی،، ایک سازش کے تحت ایک شخص نے ایسا ہونے نہیں دیا، تہلکہ خیز انکشافات
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) نامور کالم نگار رؤف کلاسرا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میرے جیسے کسی سیانے نے کہا ‘سر جی عوام سے براہ راست بات کریں‘ ان کی فون کالز لیں۔ یوں اب عوام سے براہ راست بات کی گئی‘ لیکن ایک بات کا خیال رکھا گیا کہ کالز لائیو نہیں ہوں گی بلکہ ریکارڈ کر کے انہیں اچھی طرح ایڈیٹ کیا جائے گا۔
تاکہ کوئی ایسا سوال نہ چلا جائے جو بعد میں مسئلہ بنا دے۔ اس معاملے کو ہینڈل کرنے کیلئے درجن بھر وزیراور افسران بھاگ دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔یوں وزیراعظم کے اس لائیو شو کے نام پر ریکارڈ کیے گئے پروگرام میں کوئی ایسا سوال نہ تھا جس پر وزیراعظم کے ماتھے پر پسینہ آتا یا انہیں لگتا کہ عوام کن مشکلات کا شکار ہیں اور پانی اب ناک سے اوپر ہونے لگا ہے۔ وہی سوالات سامنے آئے جن سے وزیراعظم کو تکلیف نہ ہو‘تاہم ایک سوال مزے کا تھا کہ جناب آپ خود وزیراعظم ہیں اور کرکٹر ہیں لیکن آپ کے دور میں ہی کرکٹ تباہ ہوگئی ہے۔ عمران خان صاحب نے وہی پرانی بات دہرائی کہ سب چیزیں ایک دن میں ٹھیک نہیں ہوسکتیں ‘ وقت لگتا ہے‘ برسوں کا گند ہے سمیٹنے میں وقت لگے گا۔اب سوال یہ ہے کیا واقعی عمران خان کرکٹ کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ واقعی چاہتے ہیں کہ 1992ء ورلڈ کپ ٹیم کے بعد کوئی اور کپتان بھی ورلڈ کپ جیتے‘ جیسے وہ جیتے تھے ‘یا یہ اعزاز صرف ان کے نام کے ساتھ جڑا رہنا چاہیے کہ ایک ہی کپتان تھا جو ورلڈ کپ لایا؟عمران خان صاحب کے دور میں بورڈ اور ٹیم جن لوگوں کے حوالے کئے گئے ان میں کوئی بھی پروفیشنل کوچ نہیں ہے۔ ابھی جس کو کرکٹ ٹیم کا سلیکٹر لگایا گیا ہے۔
اس کو شاید ہی پاکستان میں کوئی جانتا ہو۔ وقار یونس نے کبھی کوچنگ کورس نہیں کیا‘ جیسے عاقب جاوید نے کہا ہے کہ کمنٹری باکس سے اُٹھ کر کوچ لگ جاتے ہیں‘کوچنگ سے اُٹھ کر کمنٹیٹر اور اگر دونوں کام نہ ہوں تو وہ آسٹریلیا میں بنائے اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ کسی اور ٹیم کی کوچنگ نہیں کی۔ مصباح الحق کا سب کو علم ہے وہ اچھے کھلاڑی ضرور تھے لیکن اچھے کوچ نہیں نکلے۔ نہ کوئی بیٹسمین ڈھونڈ سکے نہ باؤلر اور جو حالت باؤلنگ‘ بیٹنگ کی نیوزی لینڈ میں ہوئی وہ سامنے ہے۔ وسیم اکرم اور وقار یونس پر الزام لگتا ہے کہ انہوں نے اپنے بعد کوئی باؤلر پیدا نہیں ہونے دیا۔شعیب اختر کے ساتھ جو بدترین سلوک وسیم اکرم نے کیا وہ سب کو معلوم ہے۔عامر سہیل نے اس بارے میں لب کشائی کی اور اپنے ایک انٹرویو میں بہت اہم سوالات اٹھائے تھے۔ عامر سہیل کا کہنا تھا‘ پاکستان کو جان بوجھ کر 1992ء کے بعد کرکٹ ورلڈ کپ نہیں جیتنے دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان 1996ء‘1999ء اور 2003ء کے ورلڈ کپ جیت سکتا تھا لیکن ایک کھلاڑی نے نہیں جیتنے دیے اور اس طرح کے حالات ٹیم کے اندر پیدا کیے گئے کہ یقینی جیت کو بھی ہار میں بدل دیا گیا۔ مقصد وہی تھا کہ بس پاکستان میں ایک ہی ٹیم بنی تھی جو 1992ء کی تھی۔
اس سے پہلے نہ کوئی ٹیم تھی‘ نہ کپتان‘ نہ اس کے بعد ایسی ٹیم بنے گی ۔ عامر سہیل کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کون اس کھلاڑی کو استعمال کررہا تھا اورڈوریں ہلا رہا تھا کہ پاکستان 1992ء کے بعد ورلڈکپ نہ جیت سکے
اور اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ عامر سہیل نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ جس نے ورلڈ کپ نہیں جیتنے دیے‘ اس کی انہی ”خدمات‘‘ کے صلے میں اسے صدارتی ایوارڈ بھی دیا گیا۔بہرحال ڈھائی سال میں جو کرکٹ ٹیم کی حالت ہوگئی ہے اور جس طرح بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ کے عہدے دار چنے گئے ہیں اس سے عامر سہیل کی باتوں میں کچھ وزن لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی‘ کہیں نہ کہیں بیٹھ کر یہ پلاننگ کرتا رہا ہے اور ابھی تک کررہا ہے
کہ 1992 کی ٹیم ‘ کپ اور کپتان کو ہی یاد رکھا جائے۔ عمران خان صاحب یہ بات نہیں سمجھ رہے کہ ان کے وزیراعظم بننے میں ورلڈ کپ کا ہاتھ ہے‘ کرکٹ پاکستانیوں کا جنون ہے اور ان کے دور میں ہی کرکٹ ٹیم نیچے گئی ہے۔ ہر بات پچھلوں پر ڈال دینے سے کام نہیں چلے گا۔ وزیراعظم بن کر انہوں نے ایسے لوگوں کو بورڈ اور کرکٹ ٹیم میں لگوایا ہے جو اسے روز بروز نیچے لے جارہے ہیں۔عامر سہیل کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ عمران خان صاحب کو اس کھلاڑی کا شکر گزار ہونا چاہیے جس نے 1992ء کے بعد کوئی ورلڈ کپ نہیں جیتنے دیا۔